گروپ بندی: شاہ محمود قریشی پارٹی اختلافات ختم کرانے میں ناکام

March 04, 2021

پنجاب میں سینیٹ کی 11سیٹوں پر بلامقابلہ انتخاب کے بعد ملتان کو بھی ایک نشست مل گئی اور عون عباس بپی کامیاب ہوئے، اس انتخاب سے پہلے یہ افواہیں گرم تھیں کہ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے بہت سے صوبائی ارکان اسمبلی ناراض ہیںاور سینیٹ انتخابات میں وہ شاید اپنی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے، مگر یہ ساری افواہیں اور یہ سب کچھ اس وقت دم توڑ گیا، جب پنجاب کی نشستوں پر بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کر لئے گئے، پورے ملک کی طرح سب کی نظریںاسلام آباد کی نشست پر لگی رہیں اور سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے خاصطور پر جنوبی پنجاب اور ملتان میں اس امید کا اظہار کیا جاتا رہا کہ وہ سینیٹ کا انتخاب جیت جائیں گے، جس وقت یہ تحریر شائع ہوگی، اس وقت تک سینیٹ انتخاب کا نتیجہ آچکا ہوگا۔

نتیجہ چاہئے کچھ بھی رہا ہو مگر یہ بات حقیقت ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات میں ایک خاصہلچل پیدا ہوئی اور حکومت کو مرکزی نشست بچانے کے لئے بڑے پاپڑبیلنے پڑے، ملتان میں اگرچہ گیلانی خاندان کو ایک مرکزی حیثت حاصل ہے، تاہم ملکی سطح پر سید یوسف رضا گیلانی کی ان سینیٹ انتخابات میں شرکت کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سید یوسف رضا گیلانی کی سیاسی زندگی بھرپور رہی ہے اور انہوں نے ملک کے مختلف سیاسی خانوادوں میں اپنی جڑیں بنا رکھی ہیں، سینیٹ انتخابات کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔

اس بارے میں مختلف قیافے اور مختلف چہ مگوئیاں جاری ہیں، تاہم حکومت اگر ان انتخابات میں سرخرو رہتی ہے، تو اس پر جوسیاسی دباؤ ہے، اس میں بڑی حد تک کمی آجائے گی،جنوبی پنجاب کو اگرچہ نہ ہونے کے برابر نمائندگی ملی ہے، تاہم نومنتخب سینیٹر عون عباس بپی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سیاسی ورکر ہیں اور انہوں نے ہمیشہ کارکنوں کی بات کی ہے، بیت المال کا ایم ڈی ہونے کی حیثیت سے بھی انہوںنے بہت سے رفاہی کام کئے ہیں، اب جبکہ انہیں سینیٹر بننے کا موقع ملا ہے، تو وہ خطہ بالخصو ص ملتان کے لئے زیادہ بہتر انداز سے کام کرسکیں گے ۔

گزشتہ ہفتہ ملتان میں مختلف سیاسی شخصیات کی آمدورفت جاری رہی، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق بہاول پور میں مہنگائی کے خلاف ایک ریلی کی قیادت کرنے کے بعد ملتان آئے، یہاں انہوں نے میڈیا سے مکالمہ کیا اور جنوبی پنجاب کی انتظامی مجلس سے خطاب بھی کیا، انہوں نے بہاول پور اور ملتان دونوں جگہ حکومت پر شدید تنقید کی اور ساتھ ہی ساتھ پی ڈی ایم کو بھی حکومت کی بی ٹیم قراردیا،ان کا کہنا تھا کہ عمران خان یک ناکام وزیر اعظم ہیں انہیں اگرپانچ سال کی بجائے پانچ سو سال بھی دے دیئے جائیں، تو یہ عوام کے لئے کوئی ریلیف فراہم نہیںکرسکیں گے، ان حالات میںصرف جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے، جو ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے۔

دوسری طرف کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی بھی ملتان آئے، انہوں نے دو مختلف تعلیمی اداروں میں منعقد ہونے والے کشمیر سیمیناروں سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ بھارت کا مکروہ چہرہ کشمیر پر مظالم کے حوالے سے پوری دنیامیں بےنقاب ہوچکا ہے، پاکستان کشمیریوں کے لئے اپنی حمایت جاری رکھے گا اور عمران خان صحیح معنوں میں کشمیر کے سفیر کا کردار ادا کررہے ہیں ۔

ادھر مسلم لیگ ن لانگ مارچ اور آئندہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پارٹی کی تنظیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے سرگرم ہو چکی ہے، اس سلسلہ میں ایک اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا گیا، جس میں ملک بھر سے مسلم لیگی تنظیمی عہدے داروں نے شرکت کی، ملتان سے 20رکنی مرکزی کونسل کے ارکان اس اجلاس میں شریک ہوئے، جس میں خاص طور اس حوالے سے کارکنوں و تنظیمی عہدے داروں کو آگاہ کیا گیا کہ 26مارچ کو ہونے والے لانگ مارچ میں ہرضلع سے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور دوسرا اپریل اور مئی میں ہونے والے متوقع بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصلہ لینے کی تیاری کی جائے، مسلم لیگ ن نے پیش بندی کے طور پر اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے، دوسری طرف تحریک انصاف ہے، جس کے اندر تنظیمی لحاظ سے ایک واضح انتشار موجود ہے اورجب بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوگا، تو امیدواروں کے چناؤ میں کیسی کھچڑی پکے گی۔

اس کا انداز ہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے کہ ہرشہر میںتحریک انصاف گروپ بندی کا شکار ہے، خاص طور پر ملتان میںاس حوالے سے بہت بری حالت ہے، یہاں ارکان اسمبلی کے درمیان گروپ بندی ہے، تنظیمی عہدے داروں کے درمیان گروپ بندی ہے حتی کہ کارکنوں کے درمیان بھی ایک بڑا واضح انتشار نظر آتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہےکہ شاہ محمود قریشی نے جو تحریک انصاف کے اس وقت سب سے بڑے رہنما ہیں، اس گروپ بندی کو ختم کرنے لئے کوئی کردار ادا نہیں کررہے۔

انہوں نے صرف اپنے اور اپنے صاحبزادے کے حلقوںکو فوکس کیا ہوا ہے، سارے منصوبے اور ساری ترقیاتی سکیمیں انہیں دو حلقوں کو دی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے دیگر حلقوں کے اراکین اسمبلی نہ صرف نالاں ہیں، بلکہ انہوں نے باقاعدہ احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے، ان حالات میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں، تو تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی آسان نظر نہیں آتی، کیونکہ مسلم لیگ ن کو بلدیاتی انتخابات کا گہرا تجربہ ہے۔

پھر جو آخری بلدیاتی ادارے ختم کئے گئے، ان میں بھی مسلم لیگ ن کی اکثریت تھی، اس لئے لوگ ابھی تک انہیں جانتے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت ابھی بلدیاتی انتخابات کو ٹالنا چاہتی ہے، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کے شیڈول کے بعد اب شاید ان انتخابات کو مذید نہ ٹالا جاسکے، ڈسکہ کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی باعث حکومت کو جس طرح ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حکومتی اثرورسوخ کچھ کام آسکے، بلکہ بلدیاتی انتخابات بھی انتہائی کشیدہ ماحول میں منعقد ہوں گے اور ان کا پرامن انعقاد الیکشن کمیشن او ر انتظامیہ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔