عورتوں کا عالمی دن اور ہمارے رویئے

March 07, 2021

تحریر:پرویز فتح ۔ ۔۔لیڈز
پاکستان میں سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اسے ریاستی سطح پر زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ ملکی اشرفیہ، بالخصوص رولنگ الیٹ اور اقتدار پر قابض کارندے ایسے بھڑک اٹھتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ ہر سال زندگی کے مختلف شبعوں میں عالمی دن منائے جاتے ہیں۔ یہ عالمی دن ایسے خاص تہوار یا مواقع ہوتے ہیں جن کو ساری دنیا مناتی ہے تا کہ عالمی مسائل کے بارے میں عوام کا شعور بیدار کیا جائے، ماضی کے واقعات کو یاد رکھا جائے اور ثقافت،فطرت اور عالمی ورثے کو منایا جائے۔ اس لیے دنیا بھر میں بہت سی سرگرمیاں اور تقریبات ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ عالمی دن اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ھیں اور اہم سیاسی، سماجی، ثقافتی، انسانیت سوز یا پھر انسانی حقوق کے امور کےبارے میں آگاہی اور منظم عمل کو فروغ دیتے ہیں لیکن بعض ایسے عالمی دن بھی منائے جاتے ہھیں جو دنیا کے مختلف ممالک کے عوام نے سماجی ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف منظم جدوجہد کر کے منوائے ہیں، ان میں سب سے اہم 8 مارچ, عورتوں کا عالم دن اور یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن شامل ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کو ایک صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، اس کا پہلا اجتماع 1911 میں ہوا تھا۔ یہ صنعتی دنیا میں زبردست توسیع اور ہنگامہ آرائی کا دور تھا- اس وقت وسائل کے مقابلے میں آبادی میں اضافہ ہوگیا تھا اور بنیاد پرست نظریات عروج پر تھے۔ 1908 تک دنیا بھر کی خواتین میں افراتفری اور تنقیدی مباحثے چل رہے تھے۔ معاشرے میں جاری جبر اور عدم مساوات نے خواتین کو زیادہ سے زیادہ متحرک اور تبدیلی کے عمل میں سرگرم ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ پھر 1908 میں 1500 خواتین نے کام کے اوقات کار میں کمی، بہتر اور مساوی تنخواہ اور عورتوں کے ووٹنگ کے حق کے مطالبے کے لیے امریکہ کے شہر نیویارک کی گلیوں میں مارچ کیا۔ 1909 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کے ایک اعلامیے کے تحت 28 فروری کو امریک میں پہلا قومی وومن ڈے منایا گیا۔ اس کے بعد 1913 تک خواتین فروری کے آخری اتوار کو نیشنل وومن ڈے مناتی رہیں 8 مارچ کو انٹرنیشنل وومن ڈے یا عورتوں کے عامی دن کے طور پر منانے کا اجرا جرمن کمیونسٹ رہنما کلارا زیٹکین نے 111 برس قبل 1910 میں منعقد ہونے والی دوسری سوشلسٹ انٹرنیشنل میں تجویز کیا۔ اس کا مقصد 1857 اور 1908 میں امریکہ میں گارمنٹس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی کارکن عورتوں کی جدوجہد کو منانا اور عورتوں کی بطور مزدور، مرد مزدوروں کے برابر حیثیت کو اجاگر کرنا تھا۔ دوسری سوشلسٹ انٹرنیشنل دنیا کی سوشلسٹ اور لیبر پارٹیوں کی تنظیم تھی جو کہ 14 جولائی 1889 کو پیرس میں بنائی گئی تھی۔ 1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کا ڈیکلریشن اور 1910 میں عورتوں کے عالمی دن کا ڈیکلریشن دوسری سوشلسٹ انٹرنیشنل کے مشہور سیاسی فیصلوں میں سے تھے۔ بعد ازاں 1914 میں بحث مباحثے کے بعد 23 مارچ کی بجائے 8 مارچ کو عورتوں کا دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ خواتین کا عالمی دن ان کی معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی کامیابیوں کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن صنفی مساوات کو تیز کرنے کے لیے جدوجہد کرنے اور اپنے اپنے ممالک میں صنفی مساوات اور خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں نمایاں سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں کیونکہ اس روز خواتین کی تنظیمیں، سیاسی اور سماجی گروپس ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اجتماعات میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس روز خواتین اپنی کامیابیوں کا جشن مناتی ہیں، جنسی بنیاد پر مساوات اور برابری کا شعور اجاگر کرتی ھیں، صنفی برابری کیلئے سماج کے دوسرے ہم خیال طبقات اور گروپوں سے اتحاد کر کے لابنگ کرتی ہیں اور بعض ممالک میں تو خواتین کی ترویج و ترقی کیلئے مرکوز خیراتی اداروں کیلئے فنڈز بھی اکٹھا کرتی ہھیں، ہمارے پاکستان میں عورتوں کے سماج میں کردار کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ کس طرح سے سماج کے دہرے استحصال اور سماجی ظلم اور جبر کا شکار ہوتی ہیں، اس لیے یہ ہر باشعور شہری کی ذمہ داری ہے کہ سماجی آگاہی اور شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہم سمجھتے ہھیں کہ مذہبی بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی بھی عورت کی برابری، آزادی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ملک میں اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں مذہب کو علم و شعور کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، اس لیے 8 مارچ کا دن ملک کے ہر روشن خیال انسان کو منانا چاہیے اور خواتین کی آزادی اور سماجی برابری کیلئے جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور جدوجہد آزادی کو تیز کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔