قوموں کے زوال کی داستان

March 13, 2021

’’ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں اخلاقی طور پرزوال پذیر اقوام سیاسی اور معاشی زوال سے نہ گزری ہوں۔ اخلاقی خرابی پر قابو پانے کے لئے یا تو روحانی بیداری ضروری ہوتی ہے ، یا پھر بڑھتا ہوا بگاڑ حتمی قومی تباہی کا باعث بنتا ہے۔‘‘(ڈگلس میک آرتھر)

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ اسلام آباد سے سینیٹ کا انتخاب ایک بھیانک وقوعہ تھا۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نہ تو ہماری اخلاقی اقدار کی نمو کے لئے ہورہا تھا اور نہ ہی جمہوریت کے فروغ کے لئے جس کا ہم کھلم کھلا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ یہ بد حالی اس زوال کی عکاس ہے جس کا سامنا ہمارا معاشرہ کر رہاہے لیکن جو چیز ہم ممکنہ طور پر محسوس کرنے میں ناکام رہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے بارے میں اب بات نہیں کریں گے اور اسکا سدباب نہیں ہوتا تویہ سنگین بیماری لاعلاج ہو جائے گی۔

جو قومیں عروج پر جاتی ہیں وہ زوال پذیربھی ہوتی ہیں۔ اگرچہ قوموں کو تہذیب کالبادہ اوڑھنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں ، لیکن قوموں کی تنزلی بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ بعض عوامل کی وجہ سے جب اقوام ایک انحطاطی چکرمیں الجھ جاتی ہیں تو انہیں اس کے تکلیف دہ نتائج سے نکالنا ناممکن ہو جاتاہے۔بلکہ وہ جلد ہی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں جسے مناسب و ہمدردانہ الفاظ کے ساتھ یاد نہیں رکھا جاتا۔پاکستان کی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہم طرح طرح کے مصائب کا شکار ہیںہم جس موڑ پر آج کھڑے ہیںیہ سفر سالوں پر محیط ہے۔ لوگوں کو ان کی اخلاقی اقدار سے محروم رکھنے کے لئے ایساکیا گیا ہے۔ نتیجتاً وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے برائی اور اچھائی میںامتیاز کرنے کی صلاحیت کھو دی۔وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اُن کے پاس اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوئی بھی راستہ منتخب کرنے کااختیارموجود ہے جو ان کی پسند سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہ سوچے بغیر کہ آیا اس طرح کا کوئی اختیارقانونی حیثیت اور اخلاقیات کے کم سے کم معیار پر پورا اترتا ہے یایہ صرف اُن کی خواہشات کو تقویت بخشتاہے ؟

یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ الیکشن کے معاملہ کو ہی لے لیں۔ وہ ایک سابق وزیر اعظم ہیں جب دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود وہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے لئے عدالت کے احکامات پر عمل کرنے سے انکارکرتے رہے جس میںانہوں نے اپنے قائد آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے میںقانونی چارہ جوئی کی استدعاکرنی تھی تو سپریم کورٹ نے اُنہیں اُن کے عہدے سے ہٹا دیا۔ انہوں نے تاخیراس بات کویقینی بنانے کے لئے کی کہ اس معاملے میں10 سال کی مدت گزر جائے تاکہ اسے دوبارہ نہ کھولا جاسکے۔کم ہی ایسی مثالیں ملیں گی جب مسند پر بیٹھے ایک وزیر اعظم نے قانون اور اخلاقیات کی اس طرح سے توہین کی ہو۔یہی نہیں بلکہ ترکی کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران (جب وہ اس وقت وزیر اعظم تھے) ترک خاتونِ اول ایمن اردوان نے 2010ء کے زلزلہ متاثرین کے لئے ایک مہنگا ہار عطیہ کیا ۔ یہ ہار غائب ہوگیا جو بعد میںیوسف رضا گیلانی کی تحویل میں دریافت ہوا جس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا، انہیں ایف آئی اے نے حکم دیا تھا کہ وہ ہار واپس کریں یا قانونی کارروائی کا سامنا کریں۔ انہوں نے پہلے آپشن کا انتخاب کیا۔توہینِ عدالت کے مرتکب سزا یافتہ ہونے سے لے کرپیسے کے بل بوتے پر ملک کو بدنام کرنے والے گیلانی صاحب اب سینیٹ میںمنتخب ہوگئے ہیں۔ ان کا بیٹا وڈیو میںسودے بازی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا جسے الیکشن کمیشن کے سامنے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا اورایک قانونی درخواست کی شکل میں گیلانی صاحب کے سینیٹ کے ممبر کی حیثیت سے حلف کےمعاملے کو عدالت میںبھی پیش کیا گیا ۔

یہ معاملہ الیکشن کمیشن ، عدالتی نظام اور پاکستانی عوام کے لئے ایک آزمائشی کیس ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ان رکاوٹوں کوعبور کرکے پاکستان کی سینیٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائےگا؟ اگر ایسا ہوا تو یہ ان تمام اداروں کی شکست ہوگی جن کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انتخابات کے عمل کو غیرشفاف اور ناجائز ذرائع کے استعمال سے بد عنوانی کا شکار ہونے سے بچایا جائے، اگر ان اداروں نے اسے نظر انداز کیا تو یہ ایک ایسی مثال بن جائے گی کہ ہر شخص اسےاپنےمقاصد کے لئے استعمال کرے گا۔

قوی امکان ہے کہ گیلانی سینیٹ کے ممبر کی حیثیت سے اپنےجیسے لوگوں کے لئے ایک غلط راستے پر چلنے کی راہ ہموار کریں گے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایوان بالا میں ایسے ہی لوگوں کی طرف سے قانون بنانے کے لئے کوئی ایسی قرارداد پیش کی جائے جوصحیح اورغلط کے درمیان تفریق کو ختم کردےجو ان لوگوں کے مفادات کوتحفظ فراہم کرے جو جرم میں جکڑے ہوئے ہیں جیسا کہ ایلبرٹ آئن اسٹائن نے ایک بار کہا تھا ، ’’دنیا برائی کرنے والوں کے ذریعہ برباد نہیں ہوگی ، بلکہ ان لوگوں کے ذریعہ ہوگی جوبنا کچھ کئے صرف انہیں دیکھتے رہتے ہیں‘‘۔ قومیں کیسے زوال پذیر ہوتی ہیں یہ منظر ہم اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

(صاحب تحریر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)