شہید بینظیر بھٹو کا نواز شریف کو جوابی خط

March 28, 2021

از عالمِ ارواح،

جنت الفردوس

محترم بھائی نواز شریف صاحب، آپ کا خط ملا بہت خوشی ہوئی۔ یہاں کا برقی و ترسیلی نظام بہت مستعد ہے۔ جونہی آپ نے خط پر دستخط ثبت کئے اسکا متن من و عن میرے سامنے پیش ہو گیا۔ میں نے بھی اسی وقت پڑھ کر بلا تاخیر جواب تحریر کر دیا۔ محترم سہیل وڑائچ نے چونکہ یہ خط اپنے موقر اخبار میں شائع کر دیا تھا اور ٹویٹ بھی کر دیا تھالہٰذا خدشہ تھا کہ کوئی جوابی خط گھڑ کے میرے نام سے منسوب کر کے آپ کو روانہ نہ کر دے۔ آپ کا خط مدلل اور جامع ہے۔ اس میں حکایت بھی ہے، شکایت بھی ہے۔ حالات کا جائزہ بھی ہے اور وجہ تنازعہ بھی ہے۔ ہم نے سیاسی مخاصمت و مخالفت کے خاتمے کے لئے جو مفاہمت کی تھی‘ اس میثاقِ جمہوریت سے بے اعتنائی کا نوحہ بھی ہے۔ محترم بھائی، زرداری صاحب رکھ رکھائو والے آدمی ہیں لیکن استعفوں کو آپ کی وطن واپسی سے مشروط کرنا ایک ناقص اور ناپختہ عمل تھا۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ علالت اور جبر کے باعث جلا وطنی میں ہیں۔ ایک قومی سیاسی پارٹی کا سربراہ،جو تین مرتبہ ملک کا وزیرِ اعظم رہ چکا ہو، اس کے لئے ملک سے باہر رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے‘ مجھے معلوم ہے کیوں کہ میں نے بھی جلا وطنی کے دس سال نہایت کرب میں گزارے۔ آپ نے بھی آٹھ سال جبری جلا وطنی کا عذاب جھیلا۔ جلا وطنی کبھی خود ساختہ نہیں ہوتی۔ جبر و استبداد اور نامساعد حالات ہی ملک چھوڑنے کی وجہ بنتے ہیں۔ اور یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ جبر پیدا کرنے والا بھی اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ پرویز مشرف کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ دراصل زرداری صاحب عملیت پسند ہیں۔ نظریے وغیرہ کے چکر میں کم ہی پڑتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نیب و دیگر تفتیشوں کے خدشات میں گھر گئے ہیں۔ مگر لیڈر کے فیصلے حکمت اور حوصلے سے عاری نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے افکار و اعمال کے منافی ہے۔ کل ہی بابا ذوالفقار علی بھٹو شہد کی جھیل کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے ملے تو زرداری صاحب کی حرکت پر ناگواری کا اظہار کیا مگر میرا دل رکھنے کی خاطر کوئی سخت بات نہ کی۔ مگر یہ ضرور کہا کہ بیٹی جان سے بھی پیاری ہوتی ہے۔ اس کو بقائے جمہوریت کے لئے خار زارِ سیاست میں چھوڑنا، جہاں جان بھی جا سکتی ہے، کسی بھی لیڈر کے جمہوریت کے نظریہ پہ ڈٹے رہنے کے مضبوط ارادے کا مظہر ہے۔ میاں صاحب، جس جہاں کی میں اب ساکن ہوں وہاں سے اشارتاً ہی بات ممکن ہے۔ دبائو ڈالنا مشکل ہوتا ہے۔ میں اسی خط کے توسط سے زرداری صاحب سے التماس کروں گی کہ یہ معاملہ ملک اور جمہوریت کی بقا اور سلامتی کا ہے، صرف سندھ حکومت سے لپٹے رہنے کا نہیں۔ پیپلز پارٹی کی روایت قربانی کی ہے، اس کی سیاست نظریہ کی ہے۔ ان نظریات و روایات کو حوصلے کے ساتھ لے کر آگے بڑھیں۔ یہ بات میرے بچے بلاول کو بھی سمجھنا ہو گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام مہنگائی میں پس گئے ہیں، ادارے ڈوب رہے ہیں، معیشت مٹی میں مل رہی ہے۔ ایسے میں متحد رہ کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ آپ PDM کو فعال رکھیں، “آصف ول فالو یو”۔ یہ تجویز بہت مناسب ہے کہ مولانا فضل الرحمنٰ زرداری سے ون آن ون ملاقات کرلیں۔ وہ کوئی نہ کوئی مناسب راہ نکال لیں گے۔ آپ مجھ سے جب چا ہیں مشورہ کیا کریں۔ میں حاضر ہوں۔ اور کوئی خاص کام نہیں ہوتا یہاں پہ۔ آپ اپنے تجربہ کار رفقا کار کے علاوہ سہیل وڑائچ،مجیب الرحمٰن شامی اور حامد میر سے بھی مشاورت کریں۔ یہ تینوں تجزیہ نگار سیاست پہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ آپ اردو زبان پہ میری دسترس پر حیران ہو رہے ہوں گے۔ دراصل یہاں کاتبین ہی کتابت میں معاونت کرتے ہیں۔ آپ کو تو عرفان صدیقی کی خدمات حاصل ہیں۔

اپنا خیال رکھیں۔ مریم کو پیار۔ ﷲ اسے اپنی پناہ میں رکھے۔

خدا حافظ

پاکستان زندہ باد

دعا گو: بینظیر بھٹو