افغانستان میں امن کی امید؟

March 30, 2021

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کالم ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ یہ کالم افغانستان میں قیامِ امن اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے بارے میں تھا۔ اس دوران پاکستان کی کوششوں سے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری تھا، جب امریکہ اور طالبان مذاکرات کی میز پر اکٹھے ہو گئے اور مذاکرات ہورہے تھے تو امید کی جا سکتی تھی کہ اب بہت جلد افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس دوران فریقین کے بعض مطالبات اور تحفظات سامنے آنے پر کئی بار مذاکرات تعطل کا شکار بھی ہوئے۔ بہرحال مذاکرات کا سلسلہ رکاوٹوں کے باوجود جاری رہا اور آخرکار دوحہ معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدہ طے پانے کے بعد بھی میں نے اپنے ایک کالم میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ اس معاہدے پر عملدرآمد اور کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے۔حالات و واقعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے علم الاعداد بھی یہ واضح بتاتا ہے کہ ایسے معاہدے ہوتے رہیں گے، کوششیں بھی ہوتی رہیں گی لیکن اب بھی افغانستان میں امن کا قیام سوالیہ نشان ہے کیونکہ افغانستان ابھی امن سے بہت دور نظر آرہا ہے بلکہ وہاں خونریزی نظر آرہی ہے۔ یہ تو علم الاعداد کی روشنی میں امکانات ہیں جو نظر آرہے ہیں۔ اگر حالات و واقعات کو حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو علم الاعداد کے امکانات میں کوئی شبہ نظر نہیں آتا۔ اگر امریکہ کی بات کی جائے تو امریکہ سے یہ امید رکھنا کوئی عقلمندی نہیں ہوگی کہ وہ دنیا میں کہیں بھی امن کا خواہاں ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ دنیا میں منظم دہشت گرد گروہوں و تنظیموں اور دنیا میں امن و آشتی کا بانی امریکہ ہے۔ افریقہ سے لے کر مشرق وسطی، شام، عراق اور افغانستان تک کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں ہونے والی دہشت گردی، دہشت گرد تنظیموں کی مدد اور براہ راست کارروائیوں سے امریکہ کا تعلق نہ رہا ہو۔ یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مذکورہ بالا تجزیہ مبنی بر حقیقت نہیں ہے تو یہ حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو سب کے سامنے ہیں۔ بالکل اسی طرح افغانستان میں روس کے خلاف امریکہ میدان میں آیا۔ آج کے طالبان اس وقت کے مجاہدین تھے۔ پھر اسامہ بن لادن اور القاعدہ سامنے آئے اور پھر ان کو کچلنے کے لئے امریکہ نے براہ راست مداخلت کی۔ وہ دن اور آج کا دن پھر افغانستان میں امن ایسا خواب بن گیا جس کی ابھی تک تعبیر ظاہر نہیں ہوئی۔مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے ایک ایک لمحے سے امریکہ باخبر ہے۔ اگر بھارت کو امریکہ کی اشیرباد حاصل نہ ہو یا امریکہ چاہے تو مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک مہینہ بھی نہیں لگےگا۔ اسی طرح فلسطین میں امریکی کردار رہا ہے بلکہ سابق صدر ٹرمپ نے تو اسرائیل کی جس طرح پشت پناہی کی وہ سب کے سامنے ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے جتنی پرخلوص کوششیں پاکستان نے کی ہیں شاید ہی کسی اور ملک نے کی ہوں۔ لیکن امریکہ کی بدنیتی اور بھارت کی مداخلت ہمیشہ ان کوششوں میں رکاوٹ کاباعث بنتی رہی ہیں۔ یہ احساس دنیا کو بعد میں ہوگا کہ افغانستان میں امن اور مسئلہ کشمیر کے حل کی کیا اہمیت تھی لیکن یہ وہ وقت ہوگا جب سب کو اپنی اپنی پڑ جائے گی پھر اس احساس کا فائدہ تو کچھ نہ ہوگا البتہ پچھتاوا ضرور ہوگا۔ مستقبل میں امریکہ کی بالادستی ختم ہونے والی ہے۔ اور جب دنیا میں بالادستی کی خواہش اور کوششیں ختم ہو جائیں گی اس کے بعد دنیا ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گی اور دنیا میں امن و سکون قائم ہو جائے گا لیکن اس سے پہلے ایک بڑی جنگ کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔اس وقت افغانستان کے 60سے 70فیصد حصے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ امریکی افواج کا انخلا بھی اب مسئلہ افغانستان بنا ہوا ہے۔ امریکہ اب محفوظ راستہ تو چاہتا ہے لیکن افغانستان میں اپنا حصہ بھی رکھنا چاہتا ہے۔ موجودہ افغان حکومت کو بطور مہرہ اسی طرح استعمال کررہا ہے جیسے بھارت اور نریندر مودی کو۔ امریکہ چین کا رستہ روکنے کے لیے ایسے لوگوں کی پشت پناہی کررہا ہے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو اس وقت مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے امن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اور جب تک مسئلہ کشمیر اور افغانستان کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاتا خطے میں قیام امن کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکے گی۔ اگر امریکہ افغانستان میں امن کا قیام چاہتا ہے تو اس بنیادی نکتہ پر طالبان کو راضی کرلے کہ طالبان ہی کی حکومت ہو لیکن جمہوری طریقہ پر ہو اور انسانی بنیادی حقوق کی پاسداری ہو لیکن یہ معاہدہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور رہے گی۔