لیڈر آف اپوزیشن: عہدہ تو مل گیا لیکن سیاسی قد کو نقصان پہنچا

April 01, 2021

سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین تو نہ بن سکے ،البتہ اپوزیشن لیڈر بننے میں ضرور کامیاب ہوئے ، تاہم انہوں نے یہ عہدہ جس طرح حاصل کیا، اس نے ان کے اس سیاسی قد کو جو پچھلے کچھ عرصہ میں نمایاں ہوا تھا، خاصہ نقصان پہنچایا ہے، ان کا اپنا سیاسی کیرئیر اس قدر شاندار ہے کہ اس میں سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ خاصہ بے معنی اور چھوٹا نظر آتا ہے ، انہوں نے پارلیمانی نظام کا سب سے بڑا عہدہ وزارت عظمیٰ حاصل کیا، اس عہدے تک پہنچنے میں ایک ارتقائی سفر نظر آتا ہے ، جو انہوں نے نیچے سے اوپر کی طرف کیا ہے ، مگر تاریخ کے اس مرحلہ پر ان کے سیاسی کیریئر میں ترقی معکوس کا شائبہ ابھرتا ہے، پھر جس طرح انہوں نے پی ڈی ایم سے بالا بالا اپوزیشن لیڈر بننے کا جو راستہ اختیار کیا، اس نے ان کے سیاسی امیج کو خاصہ داغ دار کیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی حمایت سے ہی سینیٹر منتخب ہوئے تھے، وہ پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے سینیٹر نہیں بن سکتے تھے، انہیں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے مل کر سینیٹ میں کامیاب کرایا، اب یہ اتنا بڑا احسان ہے جس کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کو بڑی دریا دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور آصف علی زرداری کی طرف سے انہیں سینیٹ کا اپوزیشن لیڈر بننے کی جو پیشکش ہوئی تھی، اسے پی ڈی ایم کی حمایت سے مشروط کر دینا چاہیے تھا، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، یوں وہ اپوزیشن لیڈر تو بن گئے، مگر ان کے سیاسی کیریئر میں جو متفقہ سپیکر قومی اسمبلی اور متفقہ وزیراعظم بننے کے تمغے سجے ہیں وہ اس بار اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں پاش پاش ہوگئے اور وہ ایک متنازعہ اپوزیشن لیڈر بن کر سینیٹ میں موجود ہیں،بہرحال جوبھی ہو ، اس نے پی ڈی ایم کے اتحاد میں خاصی دراڑ ڈال دی ہے اور معاملہ اختلافات کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔

سیدیوسف رضا گیلانی کا نام اس حوالے سے اب ہمیشہ تاریخ کی زینت بنا رہے گا کہ انہوں نے اپنے سیاسی قد کاٹھ سے بہت چھوٹے عہدہ کے لئے اپوزیشن کے اس کاز کو نقصان پہنچایا، جووہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اپنی تحریک کا مقصد بنائے ہوئے تھے، پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بھول کر ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری شروع کردی ہے،گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال ملتان آئے ،توانہوںنے مخدوم جاوید ہاشمی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی ،جس کے دوران وہ پیپلزپارٹی کے اس رویہ سے خاصے نالاں نظرآئے، ان کا کہنا تھاکہ بہتر ہوتا آپ نواز شریف سے اپوزیشن لیڈر سینیٹ کے لئے بولتے وہ آپ کی حمایت کا اعلان کر دیتے۔

گیلانی صاحب اچھے انسان ہیں لیکن انہیں اخلاقی طور پر اس حوالے سے پی ڈی ایم کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا ،دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیادت مسلم لیگ ن کے اس’’ اصولی موقف‘‘ کو تسلیم کرنے کوتیارنہیں ہے اور ان کے رہنما بھی خم ٹھونک کر سامنے آگئے ہیں ،بلال ہاؤس ملتان میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے اجلاس میں پارٹی قیادت کی پالیسیوں سے مکمل اتفاق کیا گیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی پارلیمانی سیاست میں جگہ ختم ہوتی جارہی ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم برقرار رہے،ہمیں سلیکٹڈ کہنے پر افسوس ہے اور اس طرح کا رویہ اختیار کرکے مسلم لیگ ن اپوزیشن کے کاز کو نقصان پہنچارہی ہے ،ان کایہ بھی کہنا تھاکہ پیپلزپارٹی عوامی مفاد میں بہترین فیصلے کررہی ہے اور یوسف رضا گیلانی جلد چیئرمین سینیٹ ہوں گے،حکومتی پالیسیوں سے تنگ عوامی وسیاسی حلقوںمیں اس صورتحال پرتشویش پائی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگردونوںسیاسی جماعتوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی ،تویہ حالیہ دراڑ خلیج بن جائے گی اور پی ڈی ایم کا شیرزاہ بکھرجائےگا۔

ایک اور تاریخ بھی اس ہفتہ رقم ہوئی جب سپریم کورٹ نے ڈیڑھ سال کی سماعت کے بعد بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا، ان بلدیاتی اداروں کا مستقبل کیا ہے اور کیا حکومت انہیں فنڈز دے کر چلانا چاہے گی،اس کا فیصلہ تو آنے والے دنوں میں ہوگا، البتہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ضرور ہے، جس کی وجہ سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ حکومت نے غیر قانونی طور پر صرف سیاسی مخالفت کی بنا پر بلدیاتی اداروں کو توڑا تھا اور پھر انتخابات کرانے کے لیے مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتی رہی، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ابہام ابھی موجود ہے اور بحال ہونے والے بلدیاتی نمائندے اپنے اپنے دفاتر میں جاکر بیٹھ گئے ،ملتان میں بلدیہ کے مختلف دفاترپرپی ٹی آئی کے مختلف محکموں کے چیئرمین و دیگر عہدے داروں نے اپنے دفاتر بنا رکھے تھے ،جنہیں مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے خالی کرالیا۔

اس موقع پر کارکنوںمیں خاصہ جوش وخروش دیکھنے میں آیااور وہ نعرہ بازی کرتے رہے ،اب بلدیاتی نمائندوں نے چارج تو سنبھال لیا ہے ،مگر کیا وہ اپنے اختیارات بھی حاصل کر سکیں گے اورڈپٹی کمشنر،کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کا جوایک نظام موجود ہے، کیا حکومت اسے بلدیاتی اداروں کے تابع کرے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بحال ہونے والے چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلرز کی بڑی تعداد مسلم لیگ نون سے تعلق رکھتی ہے، کیا حکومت انہیں ترقیاتی فنڈز اور مراعات دے گی، اگردے گی ،تو یہ سیاسی طور پر حکومت کے لئے اس حوالے سے نقصان دہ ثابت ہوگا کہ یہی بلدیاتی نمائندے آئندہ انتخابات میں دوبارہ منتخب ہو سکتے ہیں اور اس طرح بلدیاتی نظام پر پی ٹی آئی، جو اپنی گرفت کرنا چاہتی ہے اس کا خواب شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

ادھر کورونا وبا کے باعث 4اپریل کو بانی پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے سلسلہ میں راوالپنڈی اور گڑھی خدا بخش میں ہونے والی تقاریب اور جلسے ملتوی کردیئے گئے ہیں ،تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ،تحصیل ہیڈ کوارٹرز پر برسی کی تقریبات کا سادہ اور پروقار انداز میں کورونا ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے انعقاد کیا جائے گا،ملتان ،بہاول پوراور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع و تحصیلوں میں اس حوالے سے انتظامات شروع کردیئے گئے ہیں، کارکنوں کے لئے ماسک، سینی ٹائزرز اور دیگر حفاظتی اقدامات کئے جارہے ہیں۔