سیاسی نابغے یا نابالغ

June 12, 2013

ملک بیچ منجدھارمیں ،بالغ نظری،تدبراور جرأتِ رندانہ چاہئے ۔ایسے نابغے جو وطن پر کٹ مریں۔ اسمبلی میں ”بڑے دن“پر میاں صاحب کی کئی اہم قومی مسائل سے پہلو تہی باعثِ تشویش ہے۔ ڈرون کے اوپر امریکی ناظم الامور کو بلانا احسن قدم ضرور لیکن کشمیر، بھارت، ایران گیس پائپ لائن، بلوچستان اور کراچی میں امریکہ اور بھارت کی غیر قانونی سرگرمیوں پر چپ کا روزہ باعث ندامت۔ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکڑیری آف سٹیٹ رابرٹ بلیک کا کشمیرپر دو ٹوک بیان ہماری آزادی کی قلعی ہی تو کھولتاہے۔ میاں صاحب تشکیک کے عقوبت خانے سے قوم کو نکالئے۔ بیچ طوفان میں گھری قوم کی کشتی کے ”چپو“ آپ کے ہاتھوں میں جبکہ آپ کی ہوش مندی قوم کے لیے حوصلہ مندی پیدا کرسکتی ہے ۔قومی اسمبلی کی باقی تقاریر محض تفریح طبع ہی تھیں۔ محترم مخدوم جاوید ہاشمی جذبات کی رومیں بہہ گئے یااپنی بات سمجھانہ پائے۔ ان کا اپنے الفاظ کو واپس لینا ان کی بڑائی ہی سمجھا جائے ۔ عمران خان پر مرمٹنے والے 76 لاکھ ووٹرز کی کثیر تعدادپیرسائیں کی بھی گرویدہ ہے۔میرے خیال میں مخدوم صاحب کو احساس ہو گیا کہ ایک بیوی دو خاوند نہیں رکھ سکتی ۔مخدوم صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں ان سے ایسی غلطی خلاف ِ توقع تھی۔ البتہ امین فہیم کی تقریر ماسٹر پیس تھی ۔ آرزوئیں ، تمنائیں ، شکاتیں اور آئینہ بھی ۔ ایک وقت مجھے یوں لگا جیسے مخدوم امین فہیم اور مخدوم جاوید ہاشمی کی تقاریرادل بدل ہوگئی ہیں۔ قائدین کا آنے والے خطرے کارونا رو کرجرنیلوں کو لعن طعن کرنا غیر ضروری بھی اور مضحکہ خیز بھی کیونکہ اسمبلی میں موجود سیاستدانوں کی کہکشاں کی”اصل چمک “توانہی سے مستعار لی ہوئی ہے۔ الیکشن2013 میں تحریک انصاف نے بڑی محنت سے شکست کو جیت کے جبڑوں سے چھڑوایا ہے البتہ 35 ممبروں کے ساتھ خیبر پختونخواہمیں حکومت کی تشکیل کے سانحہ سے نہ بچ سکی ۔میرے مطابق خیبر پختونخوامیں PTI ن لیگ کے جال میں بری طرح پھنس چکی ہے ۔تحریک ِ انصاف نے اقتدار کے کمبل کو ”جپھی“تو ڈال دی اب دونوں گھتم گھتا بہاؤ کے رحم وکرم پر۔جب 12 مئی کی دوپہر اسد عمر صاحب نے 35/99 سیٹوں کے اوپر KPK میں حکومت بنانے کااعلان فرمایا تو اسی وقت ہی ماتھا ٹھنکا کہ PTI گلے میں چھپکلی گُھسیڑ نے کے چکر میں ہے ۔ کیا PTI نے مضمرات اور منفی پہلوؤں کا احاطہ بھی کیا یاانٹرا پارٹی الیکشن اور پارلیمانی بورڈ کی طرح بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ۔لمحاتی فیصلوں اور غیر سیاسی رویوں کا 17 سالہ تجربہ آخر کسی کام تو آنا ہی تھا۔ شومئی نصیب !مرکز اوردیگر 3 صوبے3 دن کے اندرساری کابینہ بنا چکے۔اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے 2 ہفتے مٹر گشت میں ضائع کر دئیے ۔ برادرم سلیم صافی کے ساتھ پرویز خٹک کے حالیہ انٹرویو سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ سمت ہے نہ نقشہ ۔ پارٹی کے اندرجوتوں میں وزارتوں کی دال بٹنے کا میلہ سج چکا ہے اور تلواریں نیام سے باہر۔میری ایک تجویز کہ وزارتوں کی منصفانہ اور میرٹ پر تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے انٹرا وزارتی الیکشن کرا دئیے جائیں ۔ لڑائی بھی کم ہو جائے گی اور پیسے والے اپنی مرضی کی وزارت بھی جیت جائیں گے۔دوسری طرف جماعت اسلامی کے ساتھ بھی اتحاد ہچکولے کھا رہا ہے ۔یہ سوچ بھی پنپ رہی ہے کہ حکومت تحلیل کر کے نئے انتخابات کروا لیے جائیں ۔ پنجابی کہاوت” نانی نے خصم کیا بُرا کیا۔ کرکے چھوڑ دیا اس سے برا کیا“ ۔بابا پہلے دن ہی کہہ دیا تھاکہ آج کی تاریخ میں اپوزیشن ہی آپ کاتشخص ہے۔حکومتی ذمہ داری فقط اہلیت اور استطاعت کو آشکار کرے گی۔ انٹرا پارٹی اور پارلیمانی بورڈ کے سربریدہ فیصلوں کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔یقین اغلب نالائقی خصلت اور عادت بن چکی ہے۔
ن لیگ کے ایاز صادق نے سیپکر بنتے ہی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفی دے کر مثال قائم کر دی جبکہاسد قیصر آج تک صوبائی صدارت سے چپکے ہوئے ہیں ۔پرویز خٹک پشاور اور اسلام آباد دونوں کا کنٹرول چاہتے ہیں۔ شفقت محمود کو MNA کا ٹکٹ ملتے ہی سیکریڑی اطلاعات کا عہدہ شیریں مزاری کے لیے چھوڑ نا پڑا۔ اب شیریں MNA بھی اور سیکریڑی اطلاعات بھی۔میرٹ کا معیار دیکھ کر میرابھی دل بھی مچلتا ہے کہ کسی معقول پوزیشن کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دوں۔سرحد کی حکومت پر نگران کمیٹی ایک اوربھونڈا مذاق ہے۔ اسی طرح کا مانیٹر 1994 میں محترمہ بے نظیرنے بصورت فیصل صالح حیات جناب میاں منظور وٹوپر بنا کر بھیجا۔ نتائج بھگت لیے جبکہ فیصل صالح حیات کا تعلق تھا بھی پنجاب سے۔
ضمنی انتخابات کا شیڈول بھی آیا چاہتا ہے ۔عائلہ ملک کی میانوالی NA-71 میں دستاربندی کافیصلہ ہو چکا ہے۔بات عام ہوتے ہی میانوالی میں SMS بھونچال آچکاہے۔تازہ خبرکہ جنرل الیکشن کے موقع پر NA-71 میںآ خری 3 ہفتے کی الیکشن مہم میں تحریکِ انصاف نے مبینہ طور پر ایک کروڑ اور ضلعی تنظیم کو43 لاکھ روپیہ نقد اور 20 لاکھ روپیہ ( بصورت ایک لاکھ 5 ہزار جھنڈے) بھجوایا۔ اتنی رقم 3 ہفتے کی انتخابی مہم میں کہاں خرچ ہوئے؟ ڈونرز کی طرف سے براہ راست دیا گیا پیسہ اسکے علاوہ تھا۔ بقول شخصے الیکشن کے دن 150 پولنگ اسٹیشن پر200 گاڑیوں کے لگ بھگ بندوبست کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔باقی رقم :لکڑ ہضم ،پتھر ہضم۔Rob Crilly کو انٹرویو میں کیا فرما دیا ” ضلعی تنظیم کے کہنے پر اپنے کزن کوٹکٹ سے محروم رکھا“۔ آج وہی ضلعی تنطیم ترسیلِ زر کی اس مد سے مکمل بے بہرہ۔
چیئرمین صاحب نے ”مضروب “شکست خوردہ امیدوارکو قائل کرنے کی سرتوڑکوشش کی دلیل بھی موثرتھی کہ ان کو جتوانا پارٹی مفاد میں ہے۔ جنرل الیکشن میں چیئرمین کے دورہ میانوالی کے دوران جہاں ”میانوالی کا وزیراعظم “ کا نعرہ درودیوار ہلا گیا وہاں” تبدیلی کا نشان ، عائلہ ملک ، امجد خان“ کوئی کم دلکش نہیں تھا۔ میانوالی میں تو خانصاحب نے محنت سے پہاڑ کھود کرامجد خان دریافت کر ہی لیا۔بہرحال آنے والے ضمنی انتخاب میں چند نئے حقائق کا سامنا ہو گا۔ ساڑھے چھ سال کی روسی زبان میں تعلیم اور روسی یونیورسٹی سے حاصل شدہ ڈگری جو 2002 میں وسیلہ انتخاب بنی وہ ن لیگ کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے گی جبکہ عدالتیں بھی ن لیگ پر مائل بہ کرم ہیں۔علاوہ ازیں” میانوالی کا وزیراعظم “کے نعرے والے غبارے سے الیکشن 2013 کی حد تک ہوا بھی کچھ نکل چکی ہے۔بہرحال NA-71 کاانتخابی دنگل خاصا دلچسپ ہوگا۔فوزیہ قصوری 17 سالہ رفاقت سے منہ موڑ گئی ۔ خانصاحب کا پہلا ردعمل توقعا ت کے عین مطابق ۔ موشگافیاں زیادہ اور تاسف کم ۔جو جاتا ہے اس کا بھی بھلا جوپارٹی میں رہتاہے اپنے لیے رہنا ہے ۔”نظریاتی اور انقلابی تحریکوں“ کا مجھے تجربہ نہیں شایدیہی خاصا ہو؟ چیئرمین صاحب پارٹی ڈسپلن کے بارے میں خاصے حساس واقع ہو ئے ہیں ۔جھاڑ پلا دی کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی ناقابلِ برداشت۔
کون بتائے حضورپرانے ساتھیوں کی دلجوئی ضروری ہے یہ تاثر ٹھیک نہیں کہ ساتھی ٹشوپیپر ہیں۔ یہ بحث ہی مضحکہ خیز ہے کہ فوزیہ فاونڈنگ ممبر تھی یا نہیں۔ ایک انگریزی جریدے کے مطابق کہ ” صرف 7 لوگوں فانڈونگ ممبرتھے “صحیح نہیں ہے ۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ پارٹی کا کوئی بھی رسمی فاؤنڈنگ ممبر نہیں رہا۔چند قریبی دوست اور رشتہ داروں نے مل جل کر ہمت کر ڈالی،ہمرکاب ہو گئے ۔ڈاکٹر نوشیراں برکی البتہ پارٹی کے پہلے ڈی فیکٹو چیف ایگزیکٹو ضروررہے اور ایک دفعہ ان کے گھر(واقعSKMT ہسپتال )پر جون 1996 میں رسمی کابینہ بھی تشکیل دی گئی ۔ حضور ساتھیوں کے معاملے میں خوئے دلنوازی ضروری ہے۔ رشتوں کا تقدس ہمارا اثاثہ ہی تو ہے۔بدگمانیاں اور ناانصافیاں کارواں بننے میں رکاوٹ ہی رہیں گی۔
عمران خان کی حالیہ پریس کانفرنس میں فوزیہ قصوری کے بارے ان کا رویہ مناسب تھاگو بعد ازخرابی بسیارمگریہ ضروری تھا۔فوزیہ قصوری جیسوں کی خدمات کااعتراف نہ کیا گیا تو2013 کے انتخابات میں جو نقصان پہنچا سو پہنچا 2018 کا الیکشن ایسے رویے اوربوجہ خیبر پختونخواہ ٹریپ الیکشن 2018 کامکو(اللہ نہ کرے) بھی ٹھپ دے گا۔
Tail Piece :محترم شہاز شریف کی کابینہ نے کل ہی حلف اٹھایا اور اور پہلا حکم نامہ ایک ڈیڈ کمپنی کی سابقہ ملکیتی زمین جو میں نے اپنی دوسری ایکٹیو کمپنی کے نام منتقل کروا دی تھی کی تنسیخ رجسٹری کا غیر قانونی حکم نامہ DCO کی طرف سے جاری کرا یا ۔ بینک کو غیر قانونی طور پر اکسانا سعی لاحاصل ہی ہو گا۔ہائی کورٹ بینک کی اپیل 2008 میں خارج کرچکا ہے جبکہ یہ زمین رینویو ڈیپاٹمنٹ کے پاس 2011 تک ایک بنک کی رہن تھی جو میں نے کلیئر کروا کر ٹرانسفر کروائی۔ اس کے باوجود اگر حکومت اس رویہ پر مصر ہے تو مجھے بھی سینہ سپر پائے گی۔