ای گورننس ، وزیر اعظم کے ارادوں کا امتحان

June 13, 2013

انسانی معاشرے میں ٹیکنالوجی رحمت خدا وندی ہے۔ اس کی ایجاد اور اختیاریت (Adoption)اللہ کے انسان کو عطا کیے گئے سب سے بڑے عطیے ( بیش بہا دماغ) کے بہترین استعمال کا ایسا ثمر ہے ، جس سے تہذیب سازی اور صحت مند انسانی رویو ں کی تشکیل ہو ئی ۔ آج جو ہمیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ مغرب ایجادات اور مالی وسائل میں ہم سے بہت آگے چلا گیا ہے ۔ ایجادات تو آج کے زمانے میں دیکھتے دیکھتے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ مشاہدہ مطالعہ یہ ہے کہ روایتی معاشرے نہ صرف یہ کہ باآسانی دستیاب ٹیکنالوجی کو جلد اور مکمل اختیار نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ شہری زندگی کے جدید اصولوں کو اپنانے سے بھی گزیر یا ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ یہ صورت مز احمت کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے ۔مثلاً قطار بندی ، پبلک مقامات کو صاف ستھرا رکھنے ، خواتین اور بچوں کا احترام ، شجر کاری ، بنیادی صفائی ستھرائی، صبح کی سیر میں زیادہ سے زیادہ آکسیجن لینے، ورزش اور سادہ غذا کو طرززندگی کا حصہ بنانے میں مالی وسائل کا دخل ہے نہ کوئی مخصوص ٹیکنالوجی کی ضرورت ۔ گویا ہمارے اور ترقی یافتہ دنیا میں ترقی کے فرق کی ایک بڑی وجہ ہمارے بیمار رویے اور دستیاب ٹیکنالوجی کا ادھورا استعمال ہے ۔ عوام کی سطح پر یہ سماجی رویہ ، سستی ، سماجی دباؤ ، روایت پرستی اور جدت میں عدم دلچسپی کی شکل میں سامنے آتا ہے تو حکومتی سطح پر یہ رویہ لالچ ، بد دیانتی ، خودغرضی ، کرپشن اور نااہلی کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ حکومتی سطح پر ان سب شیطانی رویوں کی پرورش بد نیتی کی چھتری تلے ہوتی ہے ۔ بددیانت اور مفاد پرست حکام بدنیتی کاچھاتا مضبوطی سے تانے رہتے ہیں ، جس کے تلے سٹیٹس کو ء پرورش پاتا مضبوط ہو تا جاتا ہے ، کیونکہ اسے کھلی فضا اور ہوا کی بجائے مخصوص اورمحدود جگہ اور حبس درکار ہو تا ہے۔ اس میں ظلم اور مظلومیت دونوں پھیلتے جاتے ہیں لیکن انسانی زندگی کی حقیقتوں میں سے سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اللہ رحمن اور اپنی مخلوق پر مہربان ہے ۔ اس نے بندے کو اس کیفیت سے نجات کی راہیں کھول کھول کر دکھائی ہیں ۔ ہم ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں ۔تب ہی تو ماضی میں وائی کنگز ( سفاک بجری قزاق ) کا خطہ سکینڈ ے نیویا ، آج مہذب یورپ میں بھی مہذب ترین اور ریاستی و حکومتی دیانت میں دنیا کا شفاف اور پر امن ترین خطہ ہے ۔
پاکستان آج امن عامہ ، انرجی اور اقتصادیات کے جس تشویشناک بحران میں مبتلا ہے ، اس کے ہر ہر پہلو پر غور کریں اور اٹھنے والے ہر سوال کے جواب کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم شدید اخلاقی بحران کا شکار ہیں ۔ جب ہم اس قومی اخلاقی بحران کامکمل تجزیہ کرتے ہیں تو یہ شرمناک حقائق بے نقاب ہوتے ہیں کہ ہمارے ہر قومی بحران کو جنم دینے والا اخلاقی بحران حکمران طبقے سے شروع ہوا ۔ یہ ایک الگ اور طویل چیپٹر ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی ۔ اس وقت تو ہماری پوری قوم بحران در بحران کے اذیت ناک مرض کے علاج کے لیے سوچ بچار کے عمل سے گزر رہی ہے ۔ قومی سوچ کے اس لمحے میں صبح صادق کا نور دور افق پر دھیرے دھیرے پھیلتا معلوم دیتا ہے ۔ ہم غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھ رہے ہیں لیکن غلطیوں کی وجوہات معلوم کرنے پر زیادہ زور نہیں۔ بہر حال اعتراف کی طاقت ہوتی ہے، جوہمیں ”بحران در بحران “ کیکیفیت سے نکالنے کے لیے گھمبیر قومی صورت حال کی وجوہات تک پہنچا دے گی ۔ اس کا ایک واضح اشارہ یوں ملا ہے کہ گزشتہ روز کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل کے پہلے الگ الگ اجلاس میں موجودہ قومی بحران اور اسے ختم کر نے پر اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ”میرا کوئی ذاتی مفاد ہے نہ کسی اور کا ہو نا چاہیے ۔ بد عنوانیوں کا ہر صورت احتساب ہو گا ، ناقص کار کردگی دکھانے والاوزیر نہیں رہے گا ۔ کرپشن ہر گز برداشت نہیں “ بس فی الحال جاری قومی بحران ختم کر نے کے لیے اتنا کچھ کافی ہے ۔ میاں صاحب کا یہ ابلاغ اس لیے بھی امید افزا ہے کہ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ” میرا کوئی مفاد نہیں “گویا پوری گورننس میں ٹرانسپرنسی آنے کی امیدپیدا ہو گئی۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ موضوع تو شیطان کی آنت جتنا طویل اور گھمبیر ہے مختصر ترین عرض ہے کہ یہ ثابت شدہ کیس ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ام البحران ( بد نیتی کی چھتری تلے پرورش پاتا اخلاقی بحران ) نے ٹاپ پر جنم لیا اور باٹم تک پہنچ گیا ۔ اب اگر ٹاپ پر متذکرہ خوش کن ارادے باندھے جارہے ہیں تو ہم ایک بار پھر شجر سے پیوستہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن میاں نواز شریف یہ ضرور ذہن نشین کر لیں کہ بہار نہ ان کے خالی عزائم باندھنے اور ان کے اظہار سے آئے گی نہ فقط عوام کے درخت سے چمٹے رہنے سے ۔
پاکستان میں عوام کی تڑپ اور وزیر اعظم کے بظاہر ارادوں کے مطابق ، گڈ گورننس جب یقینی ہوگی جب کہ اس کے سائنسی تقاضے پورے کیے جائیں ۔ جدید اور ترقی یافتہ معاشروں میں تہذیب سازی اور ترقیاتی اہداف کا حصول کیسے ممکن ہوا ؟ اس سوا ل پر تحقیق ہمیں یقینا ان تین بڑے جوابات تک پہنچا دے گی کہ1۔ راست ابلاغ اور اس کے مواقع 2۔جلد سے جلد وقت میں دستیاب ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ اختیاریت3۔ظہور پذیر معاشرتی ضرورتوں کے مطابق قانون سازی جدید و قدیم تاریخ کا مطالعہ ہمیں وزیر اعظم نواز شریف کے اظہار کردہ عزائم کو مطلوبہ عمل میں ڈھالنے میں بہت مدد دے سکتاہے بشرطیکہ حکمران یہ مدد لینے کو تیار ہو ں ۔ وہ کتنے تیار ہیں ؟ وزیر اعظم کے کابینہ اور اقتصادی کونسل میں ظاہر کیے گئے ارادوں اور نیت کی صحت کا ٹیسٹ ، اسی سوال کے صحیح جواب سے ملے گا جو ان کے ذہن میں موجود ہے ۔ ہمیں اس جواب سے صحیح آگاہی اس طرح ہوگی کہ وہ انسداد کرپشن کے لیے گورننس میں ٹیکنالوجی کی اختیاریت اور اسے یقینی بنانے کے لیے قانو ن سازی کے حوالے سے عملاً کیا کرتے ہیں ۔ مثلاً درج ذیل چند اقدامات ناگزیر ہیں1۔وفاقی حکومت انسداد کرپشن کے لیے فوراً نئی قانون سازی کرے جس میں بجٹ حاصل کر کے خرچ کر نے والی ہر سطح کی انتظامی مشینری کو قانوناً پابند کر دیا جائے کہ وہ ویب سائٹ پر آمدنی اوراخرجات اور ان کے طریقہ کار کی تمام تر تفصیلات ڈسپلے او ر اپ ڈیٹ کریں 2۔ہر ترقیاتی پراجیکٹ کی مکمل تفصیل اور متعلقہ سوالات کے جواب ویب پر موجود ہوں ۔جواب نہیں ہے تو عوام کے سوال پر یہی جواب ڈسپلے کیا جائے 3۔سیاست دانوں، گریڈ 17اور اس سے اوپر کے ہر سرکاری افسر کے تمام اثاثوں کی مکمل تفصیل اور ان میں کمی بیشی کو آن لائن ریکارڈ کرنا قانوناً لازم ہو ۔یہ معلومات مکمل طور پر عوام کی پہنچ میں ہو نی چاہئیں 4۔اگر کسی سائل کی ایک درخواست آج ایک سرکاری محکمے میں داخل ہوئی، پراسس میں اس پر کیا کیا کارروائی ہو رہی ہے ،تاریخ اور وقت کے ساتھ ہر مرحلے کی کارروائی سائل کی آگاہی کے لیے آن لائن اپ ڈیٹ کے ساتھ موجود ہو ، تاکہ سائل کو دفاتر کے چکر نہ لگا نے پڑیں اس طرف پٹرول کی بچت بھی ہو گی اور دفاتر میں رش کم ہو نے کے باعث عملے کی کارکردگی میں اضافہ ہو گا اور وہ کسی بھی کرپشن سے محفوظ رہیں گے ۔یوں سرکاری کلچر بھی شفاف ہو گا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے قانون بنانا ہو گا۔5۔تمام بڑی بڑی صنعتوں ، صنعتی گروپ ، تجارتی اداروں ، پررونق مارکیٹوں ، پیشہ ورانہ فرموں اور آمدنی و منافع کا مکمل ٹیکس ریکارڈ ویب سائٹ پر قانوناً عوام کے لیے ہر وقت موجود ہونا چاہیے۔ان میں جو تبدیلیا ں آتی ہیں وہ بھی قانوناً اپ ڈیٹ ہوتی رہنی چاہئیں 6۔ترقیاتی پراجیکٹس کی تکمیل میں تاخیر کی وجوہات اور مجبوریوں کو ویب سائٹ پر ڈسپلے کرنا اور نئی صورت حال کی تفصیلات سے آگا ہ کرنے کابھی قانون ہو 7۔بڑے بڑے ٹینڈرز کی تفصیلات کے لیے ایک الگ ویب سائٹ بنائی جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قانوناً پابند ہوں کہ وہ اپنی اپنی متعلقہ ویب سائٹ پر تمام ترقیاتی پراجیکٹس کی تفصیلات عوام کے لیے ڈسپلے کریں 8۔سٹیٹ بنک آف پاکستان، سیاست دانوں، صنعت کاروں ، بڑے تاجروں اور ہر نوع کے اعلیٰ سرکاری ملازمین کے (ذاتی )قرضوں کی تفصیلات بھی ویب سائٹ پر قانوناً موجود ہوں 9۔ملک میں ای گورننس کو اختیار کرنے اور اس سے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کر نے کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو ای گورننس اور اس سے متعلقہ قانون سازی کا مسودہ تیار کر کے حکومت کی معاونت کرے 10۔اگر حکومت اس کار خیر اور ناگزیر ملکی ضرورت کو پورا کر نے میں لیت و لعل سے کام لے تو اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ فوراً اس ضمن میں قانونی مسودہ لائے۔ اس میں رکاوٹ اور منظور نہ ہو نے دینے کی ذہنیت سے حکومت بھی ٹیسٹ ہو جائے گی ۔ واضح رہے کہ مطلوب آئی ٹی ٹیکنالوجی اور ہیومن ریسورس کے حوالے سے ای گورننس کو اختیار کرنے میں پاکستان میں کوئی بھی تو رکاوٹ نہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں آئی ٹی ٹیکنالوجی کے Usersتعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کی تعلیمی اہلیت اور تربیت کے مطابق روز گا ر ملنے کے دروازے بھی کھل جائیں گے ۔ وماعلینا الاالبلاغ