حضرت فاطمہ بنتِ خطاب رضی اللہ عنہا (قسط نمبر 13)

April 25, 2021

دروازے پر ہونے والی زور دار دستک سے گھر کے مکین خوف زدہ ہوگئے۔ خاتونِ خانہ دستک کے اِس مخصوص انداز سے بخوبی واقف تھیں، لیکن آج اس کا بے ہنگم ساز کسی طوفان کی آمد کا پتا دے رہا تھا۔ گھر میں اُس وقت ایک مہمان بھی موجود تھے، جنہیں جلدی سے گھر کے پچھلے حصّے میں چُھپا دیا گیا۔ دوبارہ دروازہ پیٹنے کی آواز نے مزید سہما دیا اور پھر آخر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔

خاتون نے جلدی سے دروازہ کھولا، تو سامنے بھائی کھڑا تھا، جس کے ماتھے پر سلوٹیں، چہرے پر کرختگی، شدید غصّے کے سبب آنکھوں میں خون اور ہاتھوں میں برہنہ شمشیر تھی۔ بہن کو پَرے دھکیل کر گھر کے اندر داخل ہوا اور غضب ناک لہجے میں کہا ’’ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟‘‘ ابھی جواب بھی نہ ملا تھا کہ آگے بڑھ کر بہنوئی کا گریبان پکڑا اور اُس پر ٹوٹ پڑے۔بولے’’ مجھے معلوم ہوچُکا ہے کہ تم لوگ اپنے آبائو اجداد کا دین چھوڑ کر مرتد ہوچُکے ہو۔‘‘ خاتون اپنے زخمی شوہر کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں، تو طیش میں آکر اُن کے سَر پر بھی ایک زوردار ضرب لگائی، جس سے خون کا فوّارہ پُھوٹ پڑا۔

ایسے میں معبودِ برحق نے خاتون کو قوّتِ گویائی عطا فرمائی۔ خون سے سُرخ چہرے اور آنکھوں سے برستے آنسوئوں کے ساتھ بھائی کی جانب دیکھا، پھر نہایت پُرعزم انداز میں وہ ایمان افروز الفاظ کہے، جنھوں نے بھائی کو جھنجوڑ ڈالا۔ بولیں’’عُمر! تم جس خطاب کے بیٹے ہو، میرے بدن میں بھی اُسی باپ کا خون دوڑ رہا ہے۔ ہاں! ہم دونوں میاں، بیوی نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اب چاہے تم ہمیں جان سے مار ڈالو، لیکن ہمارے دِلوں سے اللہ اور اُس کے پیغمبر، حضرت محمّدﷺ کی محبّت ختم نہ کر پائو گے۔‘‘ نڈر و بے خوف بہن ہمّت و استقلال کی تصویر بنی سامنے کھڑی ہے ، شمشیرِ برہنہ قریب ہی پڑی ہے۔ ایک نظر شمشیر پر ڈال کر بہن کی جانب دیکھتے ہیں۔

ماں جائی معصوم بہن، ہو بہو ماں کا عکس، چہرہ لہولہان، کپڑے خون میں نہائے ہوئے، آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب، جُھکی نگاہوں میں ایمان کی چمک، چہرے پر پاکیزہ نور کی جھلک، مجسّم صبرو استقامت…! عُمر کی حیران و پریشان نگاہیں اُس بہن کی متلاشی ہیں ، جو اُن کے سامنے گویا گونگی تھیں اور فرماں بردار بھی۔پھر مکّے کے جاہلانہ معاشرے میں صنفِ نازک کا بولنا تو دُور کی بات، اُنہیں تو زندہ رہنے کا بھی حق نہ تھا۔ عُمر حیران تھے کہ آخر حضرت محمّدﷺ کے پاس ایسا کون سا کلام ہے، جس نے بے زبانوں کو بھی زبان دے دی۔

وہ بہن، جو بھائی کے سامنے پلکیں اُٹھانے کی جرأت نہ کرتی تھی، آج ببانگِ دہل اپنے مسلمان ہونے پر فخر کر رہی ہے۔ عُمرکے دل کے کسی گوشے میں حق و سچّائی کی کرن انگڑائی لے کر بیدار ہوئی، اپنی زور آوری اور طاقت پر گھمنڈ کرنے والے کا غصّہ بہن کے آنسوئوں میں بہہ گیا۔ کبھی بہن کے چہرے کو دیکھتے، تو شرمندہ ہوجاتے اور کبھی بہن کے عزیمت بَھرے الفاظ پر غور کرتے، تو پیشانی پر آئے پسینے کے قطروں میں اضافہ ہوجاتا۔ ماں جائی کی محبّت دِل کو پسیجتی رہی اور عُمر کے چہرے کی کرختگی، پیار و الفت میں بدلتی رہی۔ احساسِ ندامت نے نظریں جُھکانے پر مجبور کردیا۔

شکست خوردہ لہجے میں بولے’’ فاطمہؓ! تم کیا پڑھ رہی تھیں، مجھے بھی دو۔‘‘ بہن کو لگا کہ جیسے بھائی کے اندر کا بُت پاش پاش ہوچُکا ہے۔ خون سے سُرخ چہرہ خوشی سے گلنار ہوگیا۔ جلدی سے بولیں’’ عُمر! یہ پاک کلام ہے، اسے پاک لوگ ہی چُھو سکتے ہیں۔‘‘ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ کفّار کے سب سے اہم سردار اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن نے مسلمان بہن کے حکم پر بلاچوں چراں عمل کیا۔ عُمر مکّے کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں سے ایک تھے۔

جب سورۂ طہٰ کی آیات پڑھیں، تو دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ بے اختیار بول اٹھے’’مااحسن الکلام‘‘یعنی’’ کتنا پیارا کلام ہے۔‘‘ وہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے نعوذباللہ شمعِ رسالتؐ بُجھانے نکلے تھے، لیکن دارِ ارقم پہنچ کر سرکارِ دو عالمﷺ کے قدموں میں سَر رکھ دیا اور یوں اللہ نے اپنے محبوب نبیﷺ کی دُعا کو شرفِ قبولیت سے سرفراز فرمایا اور حضرت عُمر فاروقؓ جیسے اسلام کے عظیم سپہ سالار، خلیفۂ راشد، نبی آخرالزّماںؐ کے دستِ راست کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ثواب، حضرت فاطمہ بنتِ خطابؓ کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا۔

سلسلۂ نسب

نام فاطمہؓ اور کنیت اُمّ ِ جمیل تھی۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: فاطمہ بنتِ خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک، جب کہ والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام بن المغيرہ تھا۔ ویسے تو خطاب بن نفیل نے کثرتِ اولاد کے لیے کئی شادیاں کیں اور اُن کے 14 بچّے تھے، لیکن حضرت عُمر فاروقؓ اور حضرت فاطمہؓ دونوں کی والدہ، حنتمہ بنتِ ہاشم تھیں۔ اِن دونوں بہن بھائی کے درمیان بے حد محبّت تھی۔ علّامہ ابنِ حجر نے مختلف روایات کی بنیاد پر اُن کے نام کی ترتیب اِس طرح بیان کی ہے: نام فاطمہؓ، لقب امیمہ اور کنیت اُمّ ِ جمیل۔ حضرت فاطمہؓ کا تعلق قبیلہ بنو عدی سے تھا اور اُن کا سلسلۂ نسب نویں پُشت میں نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے۔

قبولِ اسلام

حضرت فاطمہؓ کا نکاح اُن کے چچازاد، حضرت سعید بن زیدؓ سے ہوا، جو قریش کے عام نوجوانوں سے یک سَر مختلف تھے۔ نہایت شریف النّفس، ذہین، سُوجھ بُوجھ والے اور بہترین اخلاق کے مالک تھے۔ اُنہوں نے خود کو خرافات سے بچا رکھا تھا۔ بُت پرستی اور شرک سخت ناپسند تھے اور ہمیشہ اس سے دُور رہے، چناں چہ جب اسلام کا پیغام کانوں تک پہنچا، تو بیوی کا ہاتھ پکڑا اور حضرت صدیقِ اکبرؓ کی اقتدا میں بارگاہِ نبویؐ میں جا پہنچے، یوں ’’سابقون الاوّلون‘‘ کے اعزاز کے مستحق ٹھہرے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب آنحضرتﷺ ابھی دارِ ارقم منتقل نہیں ہوئے تھے۔

حضرت سعید بن زیدؓ ، اللہ کے رسولﷺ کی جانب سے جنّت کی بشارت پانے والے دس صحابۂ کرامؓ میںبھی شامل ہیں۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت سعیدؓ نے حضرت عُمرؓ کے خوف سے قبولِ اسلام کا اعلان نہیںکیا تھا۔ اسی خوف کی بنا پر دونوں نے حبشہ کی طرف بھی ہجرت نہیں کی، لیکن اس کے باوجود محض شک کی بناء پر حضرت سعیدؓ ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہتے تھے۔ سیّدنا عُمر فاروقؓ جب اپنے قبولِ اسلام کا ذکر کرتے، تو فرماتے، ’’میرے مسلمان ہونے میں فاطمہؓ اور سعیدؓ کی عزیمت، اخلاص فی الدّین کا بڑا حصّہ ہے۔‘‘

اسلام کے لیے قربانی

نبی کریمﷺ کو تبلیغِ عام کا حکم ملا، تو آپﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر صدائے حق بلند فرمائی، جسے سُن کر اہلِ قریش جان کے دشمن ہوگئے۔ ایک دن صبح سیّدنا صدیقِ اکبرؓ، رسول اللہؐ کے ساتھ بیتُ اللہ تشریف لے گئے۔ قریش کے تقریباً سب ہی سردار وہاں موجود تھے۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے موقع غنیمت جانا اور اسلام کی دعوت دے ڈالی۔ ابھی اُن کی گفتگو ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ قریش نے اُنہیں گھیر کر زدوکوب کرنا شروع کردیا، لیکن عبدالمناف، بنو ہاشم اور ابو طالب کے خوف سے حضورﷺ کو ہجوم سے الگ کردیا۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ زخموں سے چُور زمین پر پڑے تھے کہ عتبہ بن ربیعہ اپنے جوتوں سمیت اُن کے چہرۂ مبارک پر چڑھ گیا۔

تکلیف کی شدّت سے آپؓ بے ہوش ہوگئے۔ اُن کے قبیلے، بنو تیم کے لوگوں کو پتا چلا، تو دوڑتے آئے اور اُنہیں اُٹھا کر گھر لے گئے۔ جب ہوش آیا، تو قبیلے کے لوگوں نے کچھ کھانے پر اصرار کیا، تو بولے’’ مجھے میرے رسولؐ کے بارے میں بتائو۔‘‘ قبیلے کے لوگ بھی کافر تھے، یہ سُن کر غصّے میں آگئے اور اُن کے پاس سے چلے گئے۔ والد اور والدہ نے کھانے پر اصرار کیا، تو اُنہوں نے قسم کھا لی کہ جب تک حضورﷺ کے بارے میں معلوم نہ ہوگا، کچھ نہیں کھائوں گا۔ والدین بھی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ والدہ، اُمّ الخیر بیٹے کی حالت دیکھ کر نہایت غم گین تھیں، تڑپ کر بولیں’’ اے جانِ جگر! مَیں اُن کے بارے میں کس سے معلوم کروں؟‘‘ بولے ’’امّاں! خاموشی سے اُمّ ِ جمیلؓ(حضرت فاطمہؓ) کے گھر چلی جائیں اور میرا نام لے کر حضورﷺ کے بارے میں پوچھنا۔‘‘ماں فوراً اُن کے گھر کی طرف چل پڑیں۔

جب اُمّ ِ جمیلؓ نے تفصیل سُنی، تو کچھ کہے بغیر اُن کے ساتھ گھر آگئیں۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ نے اُنہیں دیکھا، تو بے تابی سے بولے’’ اُمّ ِ جمیلؓ، حضورﷺ کس حال میں ہیں؟‘‘ جواب دیا’’ اللہ کا شُکر ہے، خیریت سے ہیں۔‘‘ پھر سوال کیا’’ اِس وقت کہاں ہیں؟‘‘ جواب ملا ’’دارِ ارقم میں تشریف فرما ہیں۔‘‘ فرمایا’’اللہ کی قسم! جب تک اُنہیں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں، کچھ کھائوں گا اور نہ ہی کچھ پیوں گا۔‘‘ بالآخر رات کا اندھیرا ہونے پر اُمّ ِ جمیلؓ اور اُمّ الخیر اُنہیں سہارا دے کر دارِ ارقم لے گئیں۔ یہ واقعہ اِس بات کی دلیل ہے کہ حضرت فاطمہؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں۔ ابنِ اسحاق کے مطابق، حضرت سعیدؓ بن زید مسلمانوں کی فہرست میں 17 ویں اور حضرت فاطمہؓ بنت خطاب 18 ویں نمبر پر ہیں۔

ہجرتِ مدینہ

حضرت فاطمہؓ اور اُن کے شوہر نے آپؐ کے حکم پر مدینہ منوّرہ ہجرت کی اور مشہور صحابیؓ، حضرت ابولبابہ انصاریؓ کے گھر قیام کیا، لیکن جلد ہی مدینے میں اپنا گھر بنا کر اُس میں منتقل ہوگئے۔ حضرت فاطمہؓ اور اُن کے شوہر نے تمام اہم غزوات میں شرکت کی اور میدانِ جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ اہم خدمات سَرانجام دیں۔

وفات

حضرت فاطمہؓ نے طویل عُمر پائی۔اُن کا انتقال اپنے بھائی، امیرالمومنین حضرت عُمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں ہوا اور جنّت البقیع میں مدفون ہوئیں۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت سعیدؓ اپنی اہلیہ حضرت فاطمہؓ سے بہت محبّت کرتے تھے۔ صحابہؓ کی نظروں میں یہ ایک مثالی جوڑا تھا۔ وہ حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد اُنہیں اکثر یاد کرتے اور اُن کا ذکرِ خیر کرتے۔ بیوی کے انتقال کے بعد مستقل طور پر کوفہ منتقل ہوگئے اور وہیں حضرت علی المرتضیٰؓ کے دورِ خلافت میں اُن کا انتقال ہوا۔

علّامہ اقبالؒ نے اپنے فارسی کلام’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں حضرت عُمرؓ کے قبولِ اسلام اور حضرت فاطمہؓ کی جرأت و بہادری کو نہایت شان دار انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔حضرت فاطمہؓ بنتِ خطاب کی اولاد کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ اکثر مؤرخین نے اُن کے چار بیٹوں کا ذکر کیا ہے، جن کے نام عبدالرحمٰن، عبداللہ، زید اور اسود بتائے گئے ہیں، جب کہ کچھ مؤرخین نے صرف ایک صاحب زادے، عبدالرحمٰن کا ذکر کیا ہے۔