پختونخوا کا سیاسی منظرنامہ

April 21, 2021

طویل عرصے بعد اپنے آبائی گائوں درملک اور پختونخوا میں ایک ماہ گزارنے کا موقع ملا،دیکھا جائے تو ہم بھی مہاجر ہیں ،زمانہ طالب علمی سے کراچی میں تعلیم اور روزگارکیلئے مقیم ہیں،ایک قسم کی مستقل سکونت کے سبب گویا ہم ’’سندھی ‘‘ بھی ہیں۔یہ حالات کا جبر ہے اور اس جبرمیں اول وآخر ریاست شریک کارہےکہ ہم اپنے جنت نظیر پختونخواسے ہزاروں میل دور روزی روٹی کیلئے رہنے پر مجبور ہیں۔یہ بھی دنیا کی ایک انوکھی مثال ہے کہ ایک ہی ملک میں کسی ایک صوبے کے باشندوں نےدوسرے صوبے میں اتنی بڑی تعداد میں ہجرت کی ہو، پشاور سے زیادہ پختون آبادی کراچی میں رہتی ہے،اگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ساتھ ہر صوبے میں اُسکی ضرورت کے مطابق روزگار،تعلیم وصحت کے مواقع مہیاکئے جاتے تو نہ تو اس قدر بڑی آبادی اپنےصوبے سے انخلا پر مجبور ہوتی اور نہ ہی دوسرے صوبے اور بالخصوص وہاں کے شہروں پر آبادی کا بوجھ پڑتا،ظاہر ہے اس سے جو مسائل پیداہوتے ہیں اُس سے مقامی صوبے کے باشندوں کا متاثر ہونا فطری امرہے۔ہم نےان شب وروزمیں پختونخوا میں جو کچھ دیکھا،اُس سے یہ امر واضح ہواکہ پختون معاشرہ ٹوٹ پھوٹ ،نفسانفسی،باہمی عداوتوں اور عظیم ترقدرتی وسائل وخزانوں کے باوجود غربت کا شکارہے۔بڑی شدت سے محسوس کیا کہ کیوں باچاخان ایک صدی قبل اس قوم کی اصلاح،تعلیم اور عدم تشددکا فلسفہ لئے ہر درپر گئے تھے،اگر اُنکی بے لوث تحریک کی راہ میں فرنگی،دین فروش عناصر اور جاگیردار روڑے نہ اٹکاتے،اور معاشرہ اُن کی تعلیمات پرعمل پیرارہتا تو آج پختون معاشرہ مثالی ہوتا۔یہی بات سیاسی صورتحال کے مشاہدے سے سامنے آئی،میں کراچی سے محسن ِقوم خان عبدالولی خان کی قبرپر فاتحہ خوانی کا ارادہ لئے روانہ ہواتھا،اپنے دوستوں کے ہمراہ سب سے پہلے تاریخ سازولی باغ پہنچا،ولی باغ جنگ آزادی، ملک میںقومی وجمہوری تحریکوں اورسیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے ، ولی خان صاحب کی زندگی ہی میں سیاسی مرکز ولی باغ سے متصل جناب اسفندیارولی خان کی رہائش گاہ منتقل ہوگیاتھا،میں جو رونق ماضی میں ولی باغ میں دیکھ چکا تھا، قلب ونظراُن کی یادوں میں ڈوبے ہوئے تھے،مور بی بی بیگم نسیم ولی خان ضعیف ہیں، اس لئےاُنہیں آگاہ نہیں کیا، ولی باغ میں کچھ دیر بیٹھ کر تسکین محسوس کی،قریب ہی ایمل ولی خان کی رہائش گاہ تھی، جہاں ہمیں بتایا گیا کہ ایمل ولی کہیں گئے ہیں ،ہمیں جلدواپس جاناتھا ،اس لئے سیکورٹی گارڈ کو مشر اسفندیارولی خان کیلئے دعائے صحت اور ایمل ولی کیلئے نیک خواہشات پر مبنی ایک چٹ لکھ کر دی، مہمانوں کیلئے ولی باغ کی طرح کوئی انتظام نظر نہیں آیا،بتایاگیا کورونا کی وجہ سے آئسولیشن ہے۔ چارسدہ کے کچھ مقامات پر سیاسی لوگوں سے ملاقات کی،مردان ،صوابی گئے، کوہاٹ و پشاور میں نشستیں رہیں،سابق قبائلی علاقوں بالخصوص تور چھپر گئے،مجموعی طور پر اے این پی کے عہدیدار وکارکن ایک دوسرے سے شاکی ہیں،سوشل میڈیاکی حدتک تو سب ٹھیک ہے لیکن ماضی کی طرح موجودہ اے این پی کا عوام سے تعلق موثر نہیں۔مردان میں لوگ امیرحیدر ہوتی کے ترقیاتی کاموں کا ذکر کرتے ہیں لیکن دوسرے لمحے پارٹی کی تنظیمی کارکردگی پر سوال بھی اُٹھاتے ہیں۔اسفندیارولی خان کی علالت کے سبب ایک خلاپیداہوچکاہے ،نوجوان ایمل ولی خان اگرچہ متحرک ہیں ،لیکن اُن کی راہ نمائی کیلئے وہ جہاندیدہ، تجرکار اور آزمودہ سیاسی راہ نما موجود نہیں جو ولی خان بابا ،اجمل خٹک اور اسفندیار ولی خان میں پارٹی کی جان تھے،محترم حاجی غلام احمدبلور کی طرح کچھ تو ضعیف ہیں ،کچھ فوت ہوچکے ہیں یا پھر غیر فعال۔ایمل ولی خان کو سب سے پہلے پارٹی کارکنوں کی شکایات کے حل کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔دوسری طرف اے این پی کی مستقبل کی سب سے بڑی حریف جے یو آئی گائوں گائوں فعال ہے، اُس کی بڑی وجہ تبلیغی جماعت اور وہ مدرسے ہیںجو اگرچہ کام تو اپنے مسلک کا کرتے ہیں لیکن اسکا ساراسیاسی فائدہ جے یو آئی کو پہنچتاہے،یہ لوگ ہر وقت عوام سے رابطے میں ہونے کی وجہ سے اپنا اثر آئے روز بڑھا رہےہیں۔مجموعی طور پر پورے پاکستان میں اس وقت اے این پی صرف بلوچستان میں فعال ہے،جہاں یہ جماعت پارلیمانی سطح پر نام کماچکی ہے وہاں اپنے کاموں کی وجہ سے عوام میں بھی مقبول ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں اے این پی کی ایک حریف پختونخواملی عوامی پارٹی کےقائد محمودخان اچکزئی ان دنوں پختونخوا میں گائوں گائوں گئے تاکہ اے این پی کو جواب دے سکیں۔راقم کا مگر نقطہ نظر یہ ہے کہ اے این پی کو سب سے بڑا چیلنج جے یو آئی کا درپیش ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اے این پی محض شہروں میں ڈیرہ جمانے کی بجائے اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے کس طرح گائوں گائوں عوام تک اپنا پیغام پہنچاتی ہے۔