رمضان، کورونا اور حکومتی اقدامات!

May 03, 2021

رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے، جو ہمیں صبر و استقامت، ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔ اپنے مال و دولت سے صدقہ و زکوۃ نکال کر غریبوں میں تقسیم کرنا افضل ترین عبادت ہے۔ رمضان المبارک میں صاحب حیثیت افراد دل کھول کر غرباء و مساکین کی مدد کریں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ”یونیسیف“کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 42لاکھ بچے یتیم ہیں جن کی عمریں 17سال سے کم ہیں اور ان میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے، جنہیں تعلیم و تربیت، صحت اور خوراک کی مناسب سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔ بد قسمتی سے معاشرے میں روز بروز بگڑتی معاشی صورتحال، کم آمدنی اور سماجی رویوں کے باعث ان42لاکھ بچوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت بڑھ چکاہے۔ غریب پہلے سے زیادہ غریب اور امیر پہلے سے زیادہ امیر ہوچکا ہے۔ شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد ملکی آبادی کی 45فیصد تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی تشویش ناک امرہے۔ حکومت اپنے ہی لوگو ں کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہے۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ ہر کرپٹ فردکے خلاف تادیبی کارروائی بغیر کسی سیاسی دباؤ کے کی جانی چاہئے۔ کورونا وائرس کی روک تھام میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ ایس او پیز پر عمل در آمد کےلئے فوج طلب کرنا حکومت اور سول اداروں کی ناکامی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کنٹرول کرنے کےلئے بروقت حکومتی اقدامات کیوں نہیںکئے گئے؟ ملک میں اس وقت کورونا کی صورتحال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے۔ بڑے شہروں میں کورونا بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حالات زیادہ خراب ہیں۔اسپتالوں میں بیڈ ز اور وینٹی لیٹرز کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ آکسیجن کی کمی کے مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ آکسیجن کے سیلنڈروں کی قیمتوں میں اضافہ کرکے کچھ بے ضمیر افراد مال بٹورنے میں مصروف ہیںاور اس حوالے سے حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ ویکسین کی خریداری میں حکومت کی جانب سے غفلت کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کورونا نے تباہی مچادی ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم سوال کرتی ہے کہ ایسے کون سے عوامی،فلاحی اور انقلابی کام کیے ہیں جن کی وجہ سے وزیرا عظم اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی سے مطمئن ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔؟ جبکہ حکمرانوں کے معاشی وژن کا یہ حال ہے کہ صرف ڈھائی برس میں چار وزرائے خزانہ کو بدل دیا گیا ہے مگر عوام کی حالت پہلے سے زیادہ ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔حالیہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ناموس رسالتؐ قرار داد کو ایجنڈے میں شامل نہ کرکے بھی حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے دیگر معاہدوں کی طرح اس سے بھی راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ ناموس رسالت ؐ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اس کی حفاظت کئے بغیر ایمان محفوظ و مکمل نہیں ہوسکتا۔وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اعتراف کرچکے ہیں کہ حکومت کو یہ قرار داد 5ماہ قبل ہی پارلیمنٹ میں لے آنی چاہئے تھی۔ صرف 23منٹ جاری رہنے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے نہ قرار داد پیش کی گئی اور نہ ہی اس پر کسی رکن اسمبلی کو بحث کی اجازت دی گئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس مسئلے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 22کروڑ عوام کا مطالبہ ہےکہ حکومت توہین رسالتؐ کرنے والے ممالک سے سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کرے اور اپنی عزت ووقار بحال رکھے۔ پاکستان اور اس کے عوام با عزت اور برابری کی سطح پر بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ حکومت کو مسلم ممالک کے ساتھ مل کر اس اہم مسئلے پر عالمی سطح پر ایک بھرپور مہم شروع کرنی چاہئے۔ اسلام دین حق ہے اور تمام مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے۔ مگر آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مقد س ہستیوں اور اسلامی شعائر کی توہین ناقابل برداشت ہے۔::ضروری نوٹ۔میں نے گزشتہ کالم والدہ محترمہ کی وفات کے حوالے سے لکھا تھا۔ 21، اپریل کو والدہ کی وفات کے بعد ملک اور بیرون ملک سے احباب اور دوستوں کے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ اب بھی جاری ہےجبکہ بعض احباب اوردوست تعزیت کے لئےگھر تشریف لائے اور والدہ کے بلندی درجات کےلئے دعا کی۔ ﷲ انھیں جزائے خیر دے۔ آمین۔قصہ مختصر! میں اپنے ان تمام احباب کا بھی بے حد ممنون ہوں جنھوں نے رمضان المبارک کے ان بابرکت لمحات میں میری والدہ کو خصوصی دعائوں میں یاد رکھا ٹیلی فون کالز کیں اور اپنے تعزیتی پیغامات پہنچائے۔