اسپورٹس جرنلزم میں خواتین کی تعداد کم کیوں؟

May 05, 2021

پاکستان کی جامعات کے شعبہ ذرائع ابلاغ سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں بڑی تعداد طالبات کی ہوتی ہے لیکن عملاً بہت کم خواتین صحافت کو بطور پیشہ اختیارکر تی ہیں۔ میڈیا میںخواتین کی محدود تعداد سیاست، تعلیم، صحت، انٹرٹینمنٹ کی بیٹس کور کرتی نظرآتی ہیں، لیکن کھیلوں کے شعبے میں بمشکل ہی خواتین فیلڈ رپورٹنگ کرتی ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے کھیلوں کے شعبے سے وابستہ چند معروف صحافیوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

اسپورٹس صحافی، تجزیہ کار عالیہ رشیدکا کہنا ہے کہ آج کل میڈیا میں بہت ساری خواتین بہت اچھا کام کررہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد سے خواتین کو مواقع مل رہے ہیں۔ کہیں وہ اسپورٹس اینکر ہے تو کہیں کھیلوں کے میدان میں کھلاڑیوں کے پیچھے بھاگتی، کہیں تبصرے اور تجزیہ کرتی نظر آتی ہیں۔ پہلے ان کو اپنی جگہ بنانے کیلئے بہت جدوجہد کرنا پڑتی تھی یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ وقت بدل چکا ہے لیکن اب باصلاحیت اور محنتی نوجوان لڑکیاں بھی اس فیلڈ سے وابستہ ہیں ان کے کام کو سراہا جارہا ہے۔

عالیہ رشید نے سرکاری ٹی وی چینل سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا، ان کو 1990میں پہلی خاتون ٹی و ی اینکر بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی نمایاں کارکردگی پر قومی ایوارڈ سے بھی نوزا گیا۔

انہوںنے بتایا کہ اسکول کے زمانے سے باقاعدگی سے کرکٹ اور اسپورٹس میگزین کیلئے لکھا کرتی تھیں۔ اس فیلڈ کو جوائن کے کرنے کے بعد اور زیادہ محنت کرتی تھی۔ کرکٹ سے باخبر رہنے کیلئے ہر وقت پڑھنا لکھنا شروع کیا۔ میں نے کئی نامور اور شہرت یافتہ کرکٹرز ایلن بارڈر، ویوین رچرڈز، سنیل گواسگر، عمران خان، کلائیو لائیڈ، ای ین بوتھم، رچی رچرڈسن، ایم ایس دھونی، یوراج سنگھ کے انٹرویوز کئے لیکن میں انٹرویوز کرنے سے پہلے ساری معلومات اکھٹی کرتی تھی۔

انہوں نے فیلڈ میں آنے کے بعد چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب فیلڈ میں آئی تو میرے بارے میں لوگوں کی یہی رائے تھی کہ بحیثیت عورت، مرد کے مقابلے میں میری معلومات کم اور ناقص ہوگی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگوں کے نازیبا ریمارکس بھی سننے کو ملے۔ میرے پاس ان کی بکواس باتوں کو سننے کا وقت نہیں تھا۔ اس لئے ثابت قدم رہی لیکن بہت سے لوگوں نے میری حوصلہ افزائی بھی کی۔

سنیئر اسپورٹس جرنلسٹ عبدالماجد بھٹی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عافیہ سلام، عالیہ رشید اور فرشتے گیتی بہترین اسپورٹس جرنلسٹ رہی ہیں۔ فرشتے گیتی نے تو کرکٹ کی بڑی بڑی اسٹوریز بریک کیں، میچ فکسنگ کی اسٹویرز کور کی۔ 1994میں جب پاکستانی کرکٹرز وسیم، وقار اور مشتاق ویسٹ انڈیز میں ماریجوانا پیتے ہوئےپکڑے گئے تھے تو فرشتے گیتی پہلی خاتون تھیں جنھھوں نے یہ نیوز دی تھی۔ انہوں نے ٹیموں کے ساتھ بیرون ملک کا دورہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کسی کو ڈنڈےکے زور پر تو بڑا جرنلسٹ نہیں بناسکتے۔ اس فیلڈ میں بہت سے خواتین آتی ہیں جن سے بات کرکے پتہ چلتا ہے کہ ان کی معلومات بہت محدود ہیں جبکہ کئی ایسی جرنلسٹ ہیں جو خود کو منوا رہی ہیں۔ اسپورٹس کے علاوہ دیگر شعبوں میں جو خواتین صحافی ہیں ان میں جیو سے وابستہ صنوویا چوہدری ہیں جو بڑی بڑی اسٹوریز بریک کررہی ہوتی ہیں۔

عبدالماجد بھٹی کا کہنا ہے کہ یہ تو اوپن فیلڈ ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت جو بھی اس فیلڈ میں آنا چاہتا ہے تو وہ اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ ہمارے پاس جیو میں فاطمہ سلیم ہیں، فاطمہ سلیم اسپورٹس کے حوالے سے بہت زیادہ معلومات رکھتی ہیں ۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ رپورٹنگ کی فیلڈ میں خواتین کم ہیں۔ کراچی، لاہور، پنڈی یہاں تک کہ پشاور میں بہت ساری خواتین اسپورٹس جرنلزم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

معروف انگریزی اخبار کے سنڈے میگزین کی اسپورٹس ایڈیٹر شازیہ حسن نے بچپن ہی سے اسپورٹس جرنلسٹ بننے کا خواب دیکھا، وہ والد کے ساتھ ٹی وی پر کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کے میچز دیکھا کرتی تھیں، لیکن جب انہوں نے انگریزی کے ایک بڑے ادارے کو جوائن کیا تو ان کو بتایا گیا کہ اسپورٹس کی فیلڈ لڑکیوں کیلئے نہیں ہے۔ اس دوران تین ایڈیٹرز ملازمت چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ بالآخر چوتھے ایڈیٹر نے شازیہ کو اسپورٹس کی بیٹ پر کام کرنے کیلئے بھیجا۔

شازیہ حسن نے بتایا کہ جس دن مجھے اسپورٹس کی بیٹ ملی اس دن کسی میل جرنلسٹ نے میرے ساتھ کھانا نہیں کھایا۔ کچھ نے کہا میں گلیمر کی وجہ سے اسپورٹس میں آئی ہوں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین جرنلسٹ کو کھیلوں کی تیکنکس، اصول و قوانین معلوم نہیں ہونگے۔ ان کو کرکٹ کی باریکیاں معلوم نہیں ہونگی۔ مجھے اپنے کام سے یہ ثابت کرنا پڑا کہ میں سخت محنت کرسکتی ہوں۔

انہوں نے کہاکہ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میل اسپورٹس رپورٹر ویمن اسپورٹس کو رپورٹ کرنا پسند نہیںکرتے۔ اگر کوئی خاتون رپورٹر اس ایونٹ کو کور کرنا چاہے بھی تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

اسپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن سندھ (سجاس) کے سیکریٹری اصغر عظیم کا کہنا ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے جہاں مختلف طریقے سے خواتین کے حوصلے پست کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، کبھی ان کے لباس، بول چال پر تنقید کی جاتی ہیں تو کبھی کم علمی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے لیکن کچھ حالات کے سامنے ڈٹ جاتی جاتی ہیں اور کامیابی سے ان تمام چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں۔ ہمارے پاس عالیہ رشید، زینب عباس اور سویرا پاشا کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور کاوشوں کی بدولت ایک مقام بنایا ہے۔

انہوںنے کہا کہ کچھ خواتین کو خوبصورتی کی وجہ سے ان کی پروموشن کردی جاتی ہیں جبکہ کچھ شارٹ کٹ سے آگے بڑھنا چاہتی ہیں لیکن وہ زیادہ دیر تک اس فیلڈ میںنہیں رہ پاتی۔ دوسری طرف کچھ ایسی جرنلسٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنے کام اور میرٹ کی بنیاد پر خود کو منوارہی ہیں۔

اصغر عظیم سمجھتے ہیں کہ خواتین کو اس شعبے میں ضرور آنا چاہیے اس حوالے سے یونیورسٹیوں میں کھیلوں کے حوالےسے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کروانا چاہیے تاکہ معلومات میںاضافے کے ساتھ اسپورٹس جرنلزم میں ان کی دلچسپی بڑھے۔

سنیئر اسپورٹس جرنلسٹ اور اینکر پرسن نادرہ مشتاق 2000 سے میڈیا سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ جامعات میں طالب علموں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ صحافی صحافی ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ دونوں میںکوئی تخصیص نہیں کی جاتی۔ اس کے برعکس جب فیلڈ میں دیکھیں تو خواتین صحافیوں کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ خواتین کو صنف نازک سمجھا جاتا ہے۔ اکثر نیوز چینلز اور اخبارات میں خواتین کو صحت، تعلیم اور انٹرٹینمنٹ یا جلسے جلوس کی رپورٹنگ کی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں لیکن اہم بیٹس،کرائم یا اسپورٹس رپورٹنگ پر ان کو بمشکل ہی بھیجا جاتا ہے۔

انہوں نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ خواتین کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اچھی رپورٹر یا صحافی بن سکتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی شروع میں لوگوں کا نامناسب رویہ ہوتا تھا لیکن آپ کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا۔ میں نے کھیلوں کی دنیا میں تمام ایونٹس کور کئے۔

نادرہ مشتاق، ویمنز ورلڈ کپ میں پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی میڈیا کوآرڈینیٹر بھی رہیں اور ان کو پاکستان کی پہلی فیمیل اسپورٹس جرنلسٹ بننے کا اعزاز ہے جنہوں نے 12۔13ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

کینیڈا کے اسپورٹس چینل کے اینکرپرسن اورسنیئر اسپورٹس جرنلسٹ اشعر زیدی کا کہنا ہے کہ اسپورٹس شوز میں بہت فیمیل اینکرز دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن وہ رپورٹنگ کرنے یا لکھنے میں کم دلچسپی لیتی نظر آتی ہیں۔ شاذو نادر ہی کوئی فی میل جرنلسٹ فیلڈ یاتجزیاتی رپورٹنگ کرنا پسند کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیلڈ میں خواتین تو بہت ہیں، لیکن وہ چیلنجنگ جاب کرنا نہیں چاہتیں۔ میڈیا میں زیادہ تر خواتین کوخوبصورتی کی وجہ سےمائیک تھما دیا جاتا ہے۔ اشعر زیدی نے اسپورٹس میںکیرئیر بنانے کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی اور فیلڈ میں آپ کو کام نہیں ملا اس لئے آپ اسپورٹس فیلڈ میں آگئے۔

اب تو اسپورٹس کی فیلڈ ایونٹ بیسڈ والی فیلڈ بن چکی ہے ۔ جیو کے علاوہ اب کوئی ادارہ ایک سے زائد اسپورٹس جرنلسٹ نہیں رکھنا چاہتا۔ کسی کے لئے بھی اسپورٹس میں کیرئیر بنانے کے چانسز کم ہیں۔ یا یہ کہہ لیں کہ مواقع کم اور مقابلہ سخت ہے۔ اگر خواتین اس فیلڈ کو پروفیشن بنانا چاہتی ہیں تو ان کو سخت محنت کرنا ہوگی۔

ایک اور مقامی انگریزی اخبار سے وابستہ اسپورٹس جرنلسٹ نتاشہ راحیل کہتی ہیں کہ میری خوشی قسمتی یہ رہی ہے کہ میرا تعلق انگزیزی اخبار کے بڑے میڈیا گروپ سے ہے جہاں ایڈیٹر اور ساتھی جرنلسٹس بہت سپورٹ کرنے والے ہیں۔ایڈیٹر نے ہی مجھے اسپورٹس جرنلزم کی طرف آنے کیلئےکہا، رپورٹنگ میں آئی تو پتہ چلا کہ کرکٹ ہی صرف اسپورٹس جرنلزم ہے، بڑے بڑے صحافی صرف کرکٹ ہی کور کرتے نظر آتے ہیں جبکہ فٹبال، ہاکی، باکسنگ پر ان کا رجحان کم ہے بمشکل ہی ان کے مسائل پر لکھا اور رپورٹ کیا جاتا ہے۔

انہوںنے اپنے کیرئیر کے بتدائی دور کے بارےمیں بتایا کہ ’’شروع شروع میں کچھ میل جرنلسٹ نے انڈر پریشر لینے کی کوشش کی۔ میں چونکہ بچپن سے ہی باکسنگ اور فٹبال سے وابستہ رہی تھی تو مجھے بہت ساری ٹیکنیکل چیزیں معلوم تھیں تو میں بھی ان سے ایسا ٹیکنیکل سوال کرلیتی تھی جس کے بعد وہ چپ ہوجاتے تھے۔

نتاشہ راحیل نے فیلڈ میں ہونے والی مشکلات کے بارے میں بتایا کہ اکثر فیلڈ میں عجیب و غریب لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ رپورٹنگ کیلئے جاؤں تو لوگ خاتون صحافی کو عجیب نظروں سے دیکھتے اور بدتمیزی کرتے ہیں تو ان کے ساتھ سخت رویہ اپنانا پڑتا ہے۔