’’المصطفیٰ‘‘ کا سفر

May 09, 2021

برطانوی حکومت دنیا کے بیشتر ممالک میں صاف پانی کے منصوبوں کے لئے 176ملین پائونڈ سالانہ امداد فراہم کرتی ہے۔ کووڈ19نے دوسروں کی طرح برطانوی معیشت کوبھی اس ملک کی تین سو سالہ معاشی تاریخ میں شدید نقصان پہنچایا ہے چنانچہ حکومت ہر فنڈ میں کٹوتی کر رہی ہے ۔ صاف پانی کے منصوبوں کے لئے دی جانے والے امداد میں بھی 80فیصد کٹوتی کر دی گئی ہے برطانیہ کی ’’واٹر ایڈ‘‘ چیریٹی نے اس حکومتی فیصلے پر انتہائی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبا کے اس دور میں جب لوگوں کو ہر وقت ہاتھ دھونے کے مشورے دیئے جا رہے ہیں تو ایسے میں جب آپ پانی ہی فراہم نہیں کریں گے تو ہاتھ کیسے دھوئے جائیںگے؟200دیگر معروف چیئریٹیز کی طرح ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ بھی میدان میں آئی اور ’’اے ایم ڈبلیو ٹی‘‘ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے متعلقہ حکومتی ادارے کو خط لکھا کہ حکومت اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے تاکہ کروڑوں بے آسرا اور ضرورت مندوں کو کم از کم پینے کا صاف پانی تو میسر ہو! کورونا وائرس تو کم و بیش دو سال کی بات ہے لیکن دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ، افریقہ کے کئی ممالک میں تو کشت و خون اور خستہ حالی کئی سال سے جاری ہے۔کشمیر، برما، شام، لبنان یا پھر افریقہ کے کئی مفلوک الحال مسلمان بھوک ،بیماری اور مفلسی کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل کے باعث مہاجر کیمپوں اور کھلے آسمان تلے نانِ جویں کو ترستے ، خدائی مدد کی تلاش میں ہیں‘ انہیں یہ مدد اگر ملتی ہے تو امیر حکومتوں، مختلف تنظیموں اور انسانوں کے توسط سے جو ان لوگوں کے لئے وسیلہ بنتے ہیں اور یہ وسیلہ ’’این جی اوز‘‘ اور یکتائے روزگار افراد بھی ہیں۔

یمن میں گزشتہ پانچ سال سے حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا انسانی المیہ جاری ہے‘ 80فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا، دو کروڑ 40لاکھ سے زیادہ انسان پینے کے صاف پانی ، کھانے پینے کی بنیادی اشیاء اور شیلٹر کی سہولت سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ’’یونیسیف‘‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ان مہاجر کیمپوں میں موجود ایک کروڑ سے زیادہ بچوں کو بنیادی طبی امداد کی سہولت بھی میسرنہیں لہٰذا چیریٹیز آگے آئیںاور ان بے یارو مددگار لوگوں کی حتی الامکان مدد کریں۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد ایک آن لائن میٹنگ میں بتا رہے تھے کہ اقوام متحدہ کی جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطاق ہم صرف یمن میں ہی نہیں شام، لبنان، برما اور افریقہ کے بھی کئی ممالک اور پاکستان بھر میں پینے کے صاف پانی کے منصوبے، کھانے پینے کی بنیادی اشیاء، شیلٹر ہومز اور آنکھوں کی بیماریوں کے علاج و آپریشن کی سہولیات ان ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لئے ان ممالک میں موجود اپنی ٹیمز کے ذریعے اپنا انسانی فریضہ انجام دینے کے لئے شب و روز کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یقیناً اس کارخیر میں ہمارے ڈونرز کا مکمل تعاون ہمیں حاصل ہوتا ہے۔’’المصطفیٰ‘‘ کا یہ سفر یمن کے ساتھ ساتھ شام میں بھی جاری ہے جہاں خونی جنگ کو 10سال پورے ہو چکے۔ ساجد صاحب درست کہتے ہیں کیونکہ اس درد ناک و افسوسناک صورت حال کا میں خود بھی شاہد ہوں، دو سال قبل لندن کے صحافیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ ترکی اور شام کی سرحد پر واقع لاکھوں بے آسرا شامی خاندانوں کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں جہاں ’’اےایم ڈبلیو ٹی‘‘ اقوام متحدہ کے ریلیف کیمپوں اور رضا کاروں کے ساتھ اپنے ریلیف کیمپوں میں خدمت خلق کر رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں یہ مسلمان زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں، شام میں ہم نے روح فرسا مناظر دیکھے‘ ہمیں علم ہوا کہ اب تک یہ خونی جنگ چار لاکھ کے قریب زندگیاں نگل چکی ہے ( اب تو یہ تعداد مزید بڑھ چکی ہے) بے شمار لوگ اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہوچکے، کئی ملین بے گھر اور ہزاروں جبری لاپتا کر دیئے گئے ہیں۔ شام میں ’’سیرین آبزویٹری‘‘ تنظیم نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ چند برسوں کی جنگ نے حالات اس نہج تک پہنچادیئے ہیںکہ شام میں معیشت اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ ایک روٹی کی قیمت چار ہزار شامی لیرے تک پہنچ چکی ہے اور پھر روٹی کے حصول کے لئے گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

برما میں روہنگیا کے مسلمان بھی جن نا قابل یقین و بیان حالات سے گزر رہے ہیں یہ صرف امت مسلمہ کے لئے ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لئے بھی بڑا لمحۂ فکریہ ہے، ویسے تو یہ مسلمان دوسری عالمی جنگ کے دوران 1942ء سے ہی ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کی زد میں ہیں اور ہر دس پندرہ سال بعد ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن 2012ء میں چند مسلمانوں کے قتل سے شروع ہونے والا فساد آج اس حد تک پھیل چکا ہےکہ انسانیت بھی سسک اٹھی ہے۔ ان مسلمانوں کے تمام مدارس، مساجد اور سکول بند کردیئے گئے یا گرا دیئے گئے ہیں، عید پر جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد ہے، حج و عمرہ پر جانے کے ساتھ دیگر پابندیاں بھی عائد ہیں اور اب کئی سال سے یہ مسلمان کھلے آسمان تلے بے بسی کی زندہ تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا سفر یہاں تک بھی جاری ہے۔ ادارے کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ خدمت انسانی ہمارا دینی فریضہ تو ہے ہی لیکن انسانی تقاضا بھی ہے کہ ہم ان مظلوموں اور دکھی انسانوں کی خدمت کریں میں خود تین دفعہ گوناں گوں پابندیوں اور خطرات کے باوجود ان کیمپوں میں جا کر امداد تقسیم کر چکا ہوں اوراسی طرح لبنان اور افریقہ کے کئی پسماندہ ترین علاقوں میں بھی ہمارے کیمپ جاری ہیں۔ گزشتہ سال لبنان میں ہونے والے بم دھماکے کے بعدہم نے ہر ممکن امداد فراہم کی حتیٰ کہ فلسطین کے ان علاقوں میں بھی اقوام متحدہ کے توسط سے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں، ہمارا یہ انسانی سفر جاری و ساری رہے گا خواہ میں اکیلا ہی کیوں نہ رہ جائوں کیونکہ نیت نیک اور ارادے مضبوط ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہوتی ہے اور پھر بقول مجروح سلطانپوریؔ:

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا