الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی کریڈیبلٹی؟

May 09, 2021

یہ بات ہی کسی شمار میں نہیں آتی‘ ماسوائے اختر شماریوں کے،کہ حکومت یہ فرمان جاری کرے‘ فلاں سیٹ ہماری تھی ہی نہیں، سو ہم ضمنی الیکشن میں نہیں ہارے۔دوسری طرف پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ اور بیسیوں اراکین اس بات کا چرچا کریں کہ ہماری پالیسیاں بڑی شاندار ہیں۔ کل ملا کر بات یہ بنتی ہے کہ حکومت کو سمجھ آ رہی ہے نہ عوام کو کہ سرکاری پالیسیاں ہیں کیا اور نتائج کیا۔ 3 سال بعد اگر آپ کوئی سیٹ چھیننے یا جیتنے سے قاصر ہیں اور اُلٹا آپ کی اپنی سیٹ کے پی سے چِھن جاتی ہے، تو ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں:

ترا چڑھا ہوا دریا سمجھ میں آتا ہے

ترے خموش کنارے نہیں سمجھتا ہوں

جہاں تک ڈسکہ اور کراچی کے ضمنی انتخابات کا معاملہ ہے اس میں الیکشن کمیشن کا کردار بہت مثبت رہا، کچھ آفیسرز کی بدعنوانی کے سبب ڈسکہ این اے 75میں الیکشن دوبارہ کرایا گیا اور نتائج پی ٹی آئی سے نکل کر نون لیگ کی جھولی میں آگئے۔ کراچی 249 کی نون لیگ کو گنتی پر اعتراض تھا، اور جب شکست کا معلوم ہوگیا (پہلے نہیں) تو نون لیگ نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ‘ اسے بھی الیکشن کمیشن نے مان کر کمال کردیا۔ وہ الگ بات ہےکہ اچانک حکومت کی طرف سے ڈسکہ طرز پر دوبارہ الیکشن کا مطالبہ آگیا جو اپنی جگہ الیکشن کمیشن اور نون لیگ سے مذاق تھا، مذاق اس طرح کہ نون لیگ اور دیگر جماعتیں یہ سمجھیں کہ حکومتی مطالبے سے اب کچھ بھی ممکن نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ الیکشن دوبارہ ہونے کے باوجود پی ٹی آئی تو جیت نہیں سکتی تاوقتیکہ وہ سیٹ ایم کیو ایم یا پاک سرزمین پارٹی کو نہ دے دیں جو ممکن نہیں۔ اوپر سے پنجاب ضلع خوشاب کے ایک اور ضمنی الیکشن برائے صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے زوال کی جانب گامزن کی ایک اور قلعی کھول دی۔ ہوا یہ کہ دوبارہ گنتی کے دوران جب ہاری ہوئی کم و بیش سبھی جماعتوں نے پھر سے شکست کی آنکھوں سے آنکھیں ملتی دیکھیں، تو دوبارہ گنتی کو مشکوک قرار دے دیا لیکن اس دوران پیپلزپارٹی اور بالخصوص صوبائی وزیر سعید غنی کا اعتماد دیدنی تھا۔ اب عالم یہ کہ بقول ماہرین دوبارہ الیکشن کا جواز ہے ہی نہیں، اچھا یا برا جو ہونا تھا وہ ہوچکا جو مِین مِیخ نکالنی ہے نکالتے رہیں۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی الیکشن کمیشن پر تبصرے آئے کہ، دیکھئے جی الیکشن 2018 میں فہمیدہ مرزا چند ووٹوں سے جیتیں، ایسے ہی پیپلزپارٹی کے فیصل صالح حیات چند ووٹوں سے ہارے وہ سب گنتیاں تو گویارمضان کا 31 واں روزہ ٹھہریں مگر ڈسکہ اور کراچی میں تو کمال ہوگیا۔ یہاں ہم پیپلزپارٹی کے شکووں کو غلط قرار نہیں دے سکتے مگر الیکشن کمیشن کے حالیہ کردار کی (ماضی چھوڑ کر) تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے تاہم موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور مجموعی طور پر ادارے کا اصل امتحان تو ہے کہ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس ۔ ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے‘‘ لیکن عنانِ اقتدار رکھنے والوں کا احتساب یا حساب کتاب ہمارے ہاں کبھی ممکن نہیں ہوا بشرطیکہ قوت کا کوئی سرچشمہ پس منظر میں نہ ہو!

جہاں تک تحریک انصاف کا معاملہ ہے ایک وقت ایسا بھی آیا جب خواص و عوام نے اسے آخری امید قرار دیا، زرداری و ہم نوا، میاں نواز شریف اینڈ کمپنی اور قاف لیگ کی سیاسی سرزمین کو آندھیوں اور طوفانوں نے اکھاڑ کر رکھ دیا، اور لوگ بھی ’’پاپولر رائے‘‘ کے پیچھے چل پڑے۔ بعد ازاں جب انہی پارٹیوں اور ’’بدعنوان آبادیوں‘‘ کے باسی تبدیلی کا وعدہ کرنے والی حکومت کے سیاہ و سفید کے مالکان بن بیٹھے تو چشمِ بینا رکھنے والوں کو تو اسی وقت سمجھ آگئی کہ بات کس جانب بڑھ رہی ہے، اور کچھ رفتہ رفتہ سمجھ رہے ہیں، وہ کبھی سمجھے ہیں کیا؟ اگر تو تحریک انصاف کا مقصد بھی محض اقتدار کا حصول تھا اور تبدیلی شبدیلی محض ایک نعرہ تھا، تو دیکھتے رہئے تماشائے اہلِ کرم۔ اور اگر عمران خان کا واقعی اراداہ پختہ ہے اور نظر خدا پر تو پھر تحریک کے اثاثی رکن اکبر ایس بابر کے تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں تحفظات ختم کئے جائیں۔ اس شخص نے تو تحریک انصاف کو ملزم ٹھہرا رکھا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کی کریڈیبلٹی بہرحال اسٹیک پر ہے۔ یہ کیس معمولی نہیں اور نہ اسے نظرانداز کرنا ممکن ہے، گو تحریک انصاف عرصہ دراز سے اس معاملے کو حیل و حجت کی نذر کئے ہوئے ہے مگر ایک دن تو بلی تھیلے سے باہر آنی ہی آنی ہے۔ خود کو بچانے کیلئے تحریک انصاف کا جو یہ بیانیہ ہے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کا کچا چٹھا پہلے نکالیں۔بات سمجھ سے باہر کی پیپلزپارٹی و نون لیگ کا اور کتنا کچا چٹھا نکالنا ہے، اور کس کس نے نکالنا ہے؟ نون لیگ اور پیپلزپارٹی اپنی یا پرائی سب سیٹیں احتساب مارکہ حکومت کی شعلہ بیانیوں، ارادے کی آتش فشانیوں اور تیز پنجوں تلے سے نکالے جارہے ہیں، اور کریڈیبلٹی کا پاش پاش ہونا کسے کہتے ہیں؟ اجی ہم کسی پیپلز پارٹی یا نون لیگ کو فرشتہ پارٹی نہیں کہہ رہے مگر تحریک انصاف اگر اب بھی اپنی فرشتوں والی باتیں کئے جائے گی، تو سب افسانہ تو لگے گا!

کوئی پارٹی ہو یا لیڈر، عوام نے ان سب کیلئے جانیں بھی دیں، وقت اور مال و زر بھی ‘پھر عوام کا اتنا حق تو بنتا ہی ہے کہ انہیں حقائق سے آگاہ کیا جائے، ایسی صورت میں سیاسی قیادت کو حقیقت کے راستے کی دیوار نہیں بننا چاہیے اور جو ذمہ داری بطور ادارہ الیکشن کمیشن نے لی ہے، اسے بھی ایک تاریخ رقم کرنی چاہئے تاکہ مستقبل تاریکی سے بچ سکے اور لوگ خواہ مخواہ تاریک راہوں میں نہ مارے جائیں، یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ سلطان سکندر راجہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، اور ان کی چاہت شاید اس لئے بھی زیادہ لگ رہی ہے، کہ وہ ایک لٹکے ہوئے معاملہ کا حل چاہتے ہیں جو قابلِ ستائش عمل ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے یہاں تحریک انصاف کی کریڈیبلٹی پر حرف آتا ہے یا الیکشن کمیشن اپنی کسی کریڈیبلٹی کی داغ بیل ڈالنے جارہا ہے۔ گر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا، تو اسٹیبلشمنٹ بھی دودھ کی دھلی ہو جائے گی، ورنہ۔۔۔۔!