وہیل چیئرز پر 100 پُر عزم پاکستانی

May 16, 2021

’’ آپ میری کتاب میں موجودکسی بھی روشن ستارے کو دیکھئے۔ ملئے وہ سب ادھورے وجود کے ساتھ زندگی کے پورے تقاضے نبھارہے ہیں۔ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ذہانت و متانت اور ایمانداری سے انسان ہونے کے فرائض ادا کررہے ہیں۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ ہمت و حوصلے کے، جرأت و بہادری کے امید و یقین کے روشن مینار ہیں۔ آپ زندگی میں مکمل اعضا کے باوجود نا شکری کرتے ہیں۔ نا امید رہتے ہیں۔ اداس پریشان رہتے ہیں۔ خوش نہیں رہتے۔ مسکراتے نہیں ہیں۔ بمشکل ہونٹوں کو ہلانے کا تکلف کرتے ہیں اور وہ نا مکمل اعضا کے ساتھ شکر گزار رہتے ہیں۔ پُر امید رہتے ہیں۔ پُر سکون رہتے ہیں۔ ہونٹوں کو نہیں ہلاتے۔ دل سے مسکراتے ہیں۔ اس لیے مسکراتے ہوئے ان کے چہرےالوہی روشنی سے چمک رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ قدرت کے ساتھ ڈیل کرلیتے ہیں۔قدرت کبھی ان کی مان لیتی ہے اور کبھی اپنی منوالیتی ہے۔ کیونکہ خالق کہتا ہے میری رحمت سے مایوس مت ہو۔ میں صبرکرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ میں ہر چیز پر قادر ہوں۔ میںکن کہتا ہوں تو ہوجاتا ہے۔ میں تمہارے گمان کے مطابق ہوں اور تمہارے لیے وہی کچھ ہے جس کی تم کوشش کرتے ہو۔‘‘

۔۔۔۔

میں اپنی تحریر کا آغاز اپنے الفاظ سے نہیں بلکہ فیصل آباد کے ایک گھر میں ایک وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے پوری دنیا گھومتی‘ حرف و دانش کی تلاش میں اسمارٹ فون کی کائناتوں میں سفر کرتی۔ جواں سال گل افشاں رانا کی کتاب کی کچھ سطور سے کررہا ہوں۔ جو قلم سے کاغذ پر منتقل نہیں ہوئی۔ کی پیڈ سے پی ڈی ایف کے ذریعے پبلشر تک پہنچی ہے۔اور اب نہ جانے کتنے ہاتھوں میں ’روشن ستارے‘ بن کر چمک رہی ہے۔ کتابیں تو ہر روز ہی ڈاک سے آرہی ہیں مگر اس کتاب نے تو مجھے مسحور کردیا ہے۔ مجھے اپنی چھ دہائیوں سے لکھی تیس سے زیادہ تصنیفات اس کے آگے ہیچ لگ رہی ہیں۔ مجھے تو ﷲ تعالیٰ نے پورے اعضا سے نوازا ہے۔ چلتا پھرتا ہوں۔ دنیا میں گھومتا رہا ہوں۔ میڈیا میں نمایاں مقامات پر خدمات کا موقع ملا ہے۔ میری جستجو۔ ریاضت۔ عرق ریزی گل افشاں رانا کی ہمت اور بلندیٔ فکر کے سامنے عجز کا شکار ہوگئی ہے۔ سلام گل افشاں سلام۔

گل افشاں رانا نے اپنی حرکت سے معذوری کو مجبوری نہیں بنایا۔ گلے شکوے اور دست طلب دراز کرنے کا جواز نہیں سمجھا۔ وہ گھر میں صرف اکیلی پہیہ کرسی پر نہیں ہے ایک بہن اور 2 بھائی بھی زندگی کا زیادہ حصّہ اسی طرح بسر کررہے ہیں۔ آفریں ہے۔ اس کے والدین پر۔ خاص طور پر اس کے ابّو۔ جو بچپن سے اسکی فرمائشیں پوری کررہے ہیں۔

’روشن ستارے‘۔ ایک سال کی طویل جستجو ہے۔ اپنے جیسے ’پہیہ کرسی نشینوں‘ کو ڈھونڈنے کی۔ ان سے سوالات کرنے کی۔ معلومات کو یکجا کرنے کی۔ یہ سارے 372 صفحات اسمارٹ فون پر ہی سنے گئے۔ لکھے گئے۔ کتاب کی صورت گری بھی فون پر ہی ہوئی ہے۔ تھک گئی تو لیٹ کر کی پیڈ پر انگلیاں چلتی رہیں۔ ہم تو بڑی راحت سے آسانی سے آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے ’گرانقدر خیالات‘ کو کاغذ پر منتقل کرتے ہیں۔ کمپوزر حضرات ان کو ٹائپ کرتے ہیں۔ پھر کوئی ڈیزائنر ان کی صفحہ بندی کرتا ہے۔ کتاب شائع ہوتی ہے۔ رُونمائی ہوتی ہے۔ بعض پبلشر رائلٹی دینے کا تکلف بھی کرتے ہیں۔ بعض دولت مند احباب کتاب کی کچھ کاپیاں خرید کر حرف و دانش پر ’’عظیم احسان‘‘ بھی کرتے ہیں۔ مگر گل افشاں رانا نے پوری کتاب بیٹھتے‘ لیٹتے خود ہی ٹائپ کی ہے‘ خود ہی صفحے بنائے ہیں۔ خود ہی ابو سے پاکٹ منی لے کر چھپوائی ہے۔ اب اس کے ابّو ہی ڈاک سے اعزازی کاپیاں بھیج رہے ہیں۔ کوئی پبلشر رائلٹی نہیں دیتا۔ اسی نیک کام کے لیے قائم کی گئی نیشنل بک فائونڈیشن اور اکادمی ادبیات نے بھی رابطہ نہیں کیا۔ کتابوں سے کروڑوں روپے کمانے والے بھاٹی سے گلبرگ۔ لیاقت آباد سے ڈیفنس منتقل ہونے والے ناشروں نے بھی اس سے رجوع نہیں کیا۔

سب سے پہلے تو میں سوشل میڈیا ایجاد کرنے والے کافروں کو داد دوں گا کہ وہ اگر فیس بک متعارف نہ کراتے تو میرا رابطہ گل افشاں رانا سے نہ ہوتا۔ اس کا تعلق پاکستان میں بکھرے ہوئے 100 پہیہ کرسی نشینوں سے نہ ہوتا۔ جدید ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو یہ کتاب وجود میں نہ آتی۔ وہ لوگ جو انٹرنیٹ کو کتاب کی موت قرار دیتے ہیں۔ یہ کتاب ان کا منہ بند کررہی ہے۔ صحت مند اور سارے اعضا رکھنے والے تو آپس میں لڑتے ہیں۔ فرقے بناتے ہیں۔ لیکن یہ ادھورے لوگ ایسی دنیا بسارہے ہیں۔ جہاں محبت ہے۔ اخوّت ہے۔ یکجہتی ہے۔ امید اور صرف امید ہے۔ کوئی سیاسی محاذ آرائی ہے نہ لسانی نسلی تعصب۔ ان 100خاص لوگوں میں 39پنجاب سے۔ 38 خیبر پختونخوا سے۔ 4سندھ سے۔ 7بلوچستان سے۔ 5گلگت سے۔ 5آزاد جموں کشمیر سے ہیں۔ سب نے گل افشاں کے 21سوالوں کے جواب پوری ایمانداری اور دیانت سے دیے ہیں۔ سب کے ہاں زندگی پوری طرح جینے کی امنگ ہے۔ یہ سب اپنے اپنے عنفوان شباب میں ہیں۔ میری گنتی کے مطابق 57 بیٹے 43بیٹیاں ہیں۔ سب امید بانٹنے والے، سب پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا عزم مصمم ظاہر کرنے والے۔ ان میں سے کچھ موروثی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے سبب۔ بعض کسی حادثے میں اپنی ریڑھ کی ہڈی مجروح ہونے کے باعث اس اعضائی بوسیدگی کا شکار ہوئے ہیں۔ کھڑے ہونے میں دقّت محسوس کرتے ہیں۔ کچھ کی ہڈیاں بھربھری ہوگئی ہیں۔ ان سب کو ایک کتاب میں جمع کرنے والی سے میری فون پر گفتگو ہوئی ہے۔ مجسم ہمت، حوصلہ،کورونا کے دنوں میں گزشتہ رمضان میں شروع ہونے والی یہ کتاب کورونا کے دنوں میں رمضان سے پہلے ہی آگئی۔ ایک ویکسین چین اور دوسرے ملکوں نے تیار کی ۔ ایک ویکسین گل افشاں نے۔ بعض نے انٹرویو واٹس ایپ پر ٹیکسٹ کیا۔ بعض نے آواز میں۔ اس آواز کو عبارت میں منتقل کرنا بھی کارے دارد۔ آفریں ہے گل افشاں پر ان کے والد پر جو خود بیماریٔ دل میں مبتلا ہیںلیکن اپنے دل درد مند سے لاکھوں دلوں میں جینے کی امنگ پیدا کررہے ہیں۔ گل افشاں کی شاعری کے مجموعے کا نام بھی منفرد ہے۔’ ہچکی لیتا سورج‘ ۔اب وہ بچوںکے لیے کہانیوں کی کتاب پیش کرنے والی ہیں۔

ایک یہ دنیا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 12فی صد،کسی عضو، کسی حس سے محروم۔ لیکن زندگی کے بارے میں واضح تصورات رکھنے والے۔ اور ہر لمحے کچھ نہ کچھ کرنے والے۔ ایک طرف ہم لوگ جو پورے اعضا رکھتے ہوئے کام کرنے سے معذور۔ پورے حواس خمسہ رکھتے ہوئے بے حس۔ اسمارٹ فون نوجوان بچے۔ تفریح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گل افشاں نے تحقیق اور تربیت کے لیے اس کا سہارا لیا۔ گل افشاں اور دوسرے ننانوے نوجوان۔ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان کے خوبصورت جذبات پڑھئے۔ آپ میں زندگی بھرپور انداز سے جینے کا نیا حوصلہ پیدا ہوگا۔