کورونا کا شرطیہ علاج

May 20, 2021

اس سال 28جنوری کو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ورلڈ اکنامک فورم کے ورچوئل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ ان کے ملک نے کورونا وائرس پر قابو پاکر عالم انسانیت کو ایک بڑی تباہی سے بچالیا۔ ان کے خطاب سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ تمام دنیا سے شاباشی وصول کرنے کے نہ صرف متمنی تھے بلکہ اسے اپنا حق سمجھ رہے تھے۔ اس کے لگ بھگ سات ہفتے بعد گزشتہ اپریل کے اوائل میںموصوف نے مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ انھوں نے کورونا وائرس کو نہ صرف شکست دیدی بلکہ یہ زبردست کامیابی انھوں نے بغیر ویکسین کے حاصل کی۔ گو کہ انھوں نے مستقبل قریب میں آنے والے ممکنہ خطرات کا سرسری طور پر ذکر بھی کیا مگر ساتھ ہی اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ حالات سے نمٹنے کیلئے ان کے پاس بہتر تجربہ، وسائل اور ویکسین موجودہے۔ مودی جی نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر دبے الفاظ میں خود اپنی لیڈرشپ کی توصیف کے اشارے دیئے جسے ان کے حلیفوں اور مداحوں نے خوب سمجھا۔ اس کے بعد کابینہ اور پارٹی کے سینئر ممبران نے اپنے لیڈر اور وزیراعظم پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسانے شروع کردیئے جو اگلے دو یا اڑھائی ہفتوں تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے۔ اس دوران جب ماہرین کی طرف سے حکومت کو حالات سے نپٹنے کیلئے عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے کی صلاح دی گئی تو 'کامیابی کے نشے میں چور بی جے پی سے وابستہ لوگوں نے انہیں مذاق کا نشانہ بنایا۔ پارٹی کے فارن افیئرز کے سربراہ وجے چوتھائیوالا نے ایک اخباری کالم میں ان ماہرین کو مودی مخالف قرار دیتے ہوئے ان پر بھارت کی پراچین روایات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کو اپنا مدافعتی نظام مضبوط کرنے کیلئے گائے کا پیشاب اور ہلدی جیسے روایتی ٹوٹکے استعمال کرنے کی صلاح دی۔ ٹھیک اسی وقت حکومت نے کروڑوں لوگوں کے مذہبی اجتماع کمبھ میلے کی نہ صرف اجازت دیدی بلکہ پروہتوں کے مشورے پر اسےکئی ہفتے آگے لایا گیا تاکہ پنڈتوں کی جنتری کے مطابق بہترین اور سعد اوقات میں اس کا آرمبھ کیا جاسکے۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کیلئے مختلف ریاستوں میں قائم حکمران جماعت بی جے پی نے قومی اخبارات میں پورے صفحہ اول پر اشتہارات چھپواکر زائرین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی کہ ان تقریبات میں شمولیت صحت عامہ کے اعتبار سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کسی کو بھی یاترا کرنے سے نہیں روکا جائے گا کیونکہ انہیں یقین ہے کہ بھگوان پر بھروسے سے وائرس کا خوف زائل ہو جائے گا۔

مودی جی کے ان دعوؤں کے صرف تین ہفتوں بعد کورونا وائرس نے پورے ملک میں وہ تباہی پھیلادی کہ مڈل کلاس بھارت کے لوگ سڑکوں پر کسمپرسی کی حالت میں تڑپ تڑپ کر مرنے لگے۔ دارالحکومت نئی دلی میں ہزاروں پبلک پارکوں حتیٰ کہ سڑکوں پر شمشان گھاٹ بنائے گئے جس کے مناظر جب بین الاقوامی میڈیا نے دکھائے تو تب جاکر لوگوں کو، جن میں خود مودی جی کےحامی، حلیف اور پارٹی ورکر شامل ہیں ، حالات کی سنگینی کا احساس ہونا شروع ہوگیا۔ میڈیا پر حکومت کی سخت قدغنوں اور مرنے والوں کی تعداد چھپانے کے باوجود حکومتی ناکامی واضح ہوتی جارہی ہے اور لوگ کھلے عام اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔گجرات، جسے ہندتوا کی لیبارٹری بھی کہا جاتا ہے اور جہاں سے مودی جی کا ستارہ عروج پر پہنچا، میں بھی کھلے عام حکومت کے خلاف ناراضی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اپنی حکمرانی کے سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ نہ صرف وزیراعظم مودی اپنے امیج کے بارے میں پریشان دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ان کو اقتدار میں لانے والے راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ والے بھی خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ سردست مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والا ملک ہونے کے باوجود بھارت میں ویکسین ناپید ہے جسے عام لوگوں کو فراہم کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ ایسے حالات میں ہندتوا سے وابستہ گروپ بشمول آر ایس ایس ایک بار پھر لوگوں کا دھیان بٹانے کیلئے انہیں دیسی اور دھارمک طریقہ علاج میں الجھا رہے ہیں۔ اس میں گائےکا پیشاب پینے کا نسخہ سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ ننگے جسموں پر گوبر ملنے اور پیشاب سے نہانے کے علاوہ گھی جلاکر سنسکرت کے اشلوک پڑھنا شامل ہے۔ گزشتہ سال مودی جی کے کہنے پر لوگوں نے ملک بھر میں تھالیاں اور شنکھ بجاکر 'گو کورونا گوکے نعرے بھی لگائے تھے جس سے کئی مہینوں تک لوگوں کو یک گونہ اطمینان ہوا تھا کہ شاید وہ اسی وجہ سے محفوظ ہوگئے۔