میرا فن ہی میری انفرادیت ہے

May 30, 2021

مقبول فن کار محسن عباس حیدر نے اپنے کیرئیر کے آغاز2003ء میں ایک معروف ایڈورٹائزنگ کمپنی سے بطور وائس اوور مین کیا اور پھر قدم بہ قدم ریڈیو، ٹی وی اور فلم اسکرین تک کا سفر طے کرتے چلے گئے۔ ابھی مختلف شوز، ڈراموں اور فلموں میں کام کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک اہلیہ پر مبیّنہ تشدّد کا واقعہ سامنے آیا اور ایک ہی لمحے میں قسمت کی بازی پلٹ گئی۔ قطع نظر اس کے کہ حقائق کیا ہیں، حالات بتا رہے تھے کہ محسن عباس کا مستقبل ختم ہوگیا ۔ مگر…پھر تمام اندیشے غلط ثابت ہوئے۔ انہوں نے انتہائی ناگفتہ حالات میں بھی اپنے حواس بحال، جدوجہد جاری رکھی، تاوقتیکہ قسمت دوبارہ مہربان نہیں ہوگئی۔

رواں برس ان کے دو ڈرامے’’دِل تنہا تنہا‘‘ اور ’’گھمنڈی‘‘ آن ائیر ہوئے، جب کہ جلد ہی ناظرین انہیں جیو کے ایک ڈرامے میں یک سر نئے کردار میں دیکھیں گے۔ علاوہ ازیں، ان کی ایک فلم، "Once Upon a Time in Karachi" بھی ریلیز کے لیے تقریباً تیار ہے،جب کہ دوسری فلم ’’خبردار! اندر جانا منع ہے‘‘کی شوٹنگ جاری ہے۔

نیز، فروری2021ءمیں ریلیز ہونے والے ایک گانے’’کملی‘‘کو بھی، جو ٹرانس جینڈر، شاعرہ رائے کے ساتھ مل کر گایا ہے،شائقین سے خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔ ان کے معروف ڈراموں میں ’’مقابل‘‘،’’ میری گڑیا‘‘، ’’میراث‘‘، ’’لشکارا‘‘، جب کہ فلموں میں ’’نامعلوم افراد‘‘، ’’تیری میری لَو اسٹوری‘‘، ’’لوڈ ویڈنگ ‘‘اور’’ باجی ‘‘شامل ہیں۔ وہ بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر، بہترین گیت نگار اور بیسٹ سنگر آف دی ائیر کے ایوارڈز بھی حاصل کرچُکے ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے محسن عباس حیدرسے خصوصی بات چیت کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س:خاندان، جائے پیدائش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرا تعلق پنجابی فیملی سے ہے۔ والد ساجد حسین کا تعلق سرگودھا اور والدہ کوثر پروین کاسیال کوٹ سےتھا،مگر شادی کے بعد انہوں نےفیصل آباد میں رہایش اختیار کرلی،جو میری جائے پیدایش بھی ہے۔ مَیں نے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں گریجویشن کیا،پھر نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس(نیپا)،کراچی سے استاد سلامت علی کی زیرِ نگرانی تین سال تک فنِ موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔چوں کہ مَیں والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں،تو اکلوتے ہونے کےسب فوائد سمیٹے۔

ہر ضد، فرمایش منوائی، لیکن کبھی کوئی ایسی فرمایش نہیں کی، جو والدین کے لیے پریشانی یا دُکھ کا باعث بنے۔ عموماً میری فرمایشیں چھوٹی چھوٹی ہوتی تھیں، جیسے فیصل آباد میں رہتے ہوئے میوزک وڈیو بنانا، بیٹ بال،بچّوں کا رسالہ تعلیم و تربیت خریدنا یا پھر کراچی جانے کی ضدکرنا۔ مَیں نے عام بچّوں کی طرح گلی محلّے میں گُلّی ڈنڈا نہیں کھیلا۔ مجھے کرکٹ کھیلنے اور بچّوں کے رسائل پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔

زمانۂ طالبِ عملی میں عموماً غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا۔ کم عُمری ہی سے شاعری بھی شروع کردی تھی، تو یونی ورسٹی میں گائیکی کا ایک مقابلہ جیتنے کے بعد مجھے ’’شامِ غزل سوسائٹی‘‘کا صدر بنادیا گیا، پھر تھیڑ میں بھی کام کیا۔ رہی بات تربیت کی، تووالدین نے مجھے معاشرے میں رہنے کے قابل کیا،ادب آداب سکھائے۔میری ساری اچھائیاں والدین کی مرہونِ منّت ہیں، جب کہ ناکامیاں، بُرائیاں اور کوتاہیاں میری اپنی ہیں۔

س: آپ اکلوتے ہیں، تو کیا بہنیں بھی نہیں ہیں؟

ج: میری دو بہنیں ہیں اور دونوں مہ وَش نگار اور مہتاب کوثر مجھ سے بڑی اور شادی شدہ ہیں،مگر چھوٹا ہونے کے باوجود بہنوں نےمجھے ہمیشہ بڑے بھائی کا درجہ دیا۔ ہم تینوں میں محبّت، دوستی اور احترام کا رشتہ قائم ہے۔ مَیں اکثر اپنے انٹرویوز میں کہتا ہوں کہ میری چار مائیں ہیں۔ ایک وہ، جس نے جنم دیا، دوسری خالہ معصومہ نواز جنہوں نے گود لیا اور پھر میری دونوں بہنیں۔

س: اکلوتے ماموں ہیں، تو بھانجے بھانجیوں سے تعلقات کیسے ہیں؟

ج: بہت دوستانہ تعلقات ہیں۔ اللہ کا بےحد شُکر گزار ہوں، جس نے مجھے چھوٹی سی پیار کرنے والی فیملی سے نوازا ۔میری بہنیں فیصل آباد میں رہتی ہیں اور مجھے سرپرائز دینے کی عادت ہے، تو اکثر بِن بتائے فیصل آباد چلا جاتا ہوں اور اُن کی خُوب محبّتیں سیمٹتا اور اپنی نچھاور کرتا ہوں۔

س:کیرئیر کا آغازریڈیو اسٹیشن ،فیصل آباد سے بطور ریڈیو جوکی کیا، تو گلوکاری اورا داکاری کی جانب رجحان کیسے ہوا؟

ج:مَیں نےکیرئیر کا آغاز بطور وائس اوور مین کیا۔ اس دوران کئی کمرشلز بھی لکھے۔ پھر2004ء میں ریڈیو اسٹیشن، فیصل آباد سے بطور جوکی منسلک ہوگیا۔ 2005ء میں باقاعدہ طور پر فنِ موسیقی سیکھنے کے لیے والدین کی اجازت سے کراچی چلا آیا، تاکہ ایک پڑھے لکھے اور ادب آداب والے ماحول میں سُرسنگیت سیکھ سکوں۔

موسیقی سیکھنے کے ساتھ ایف ایم جوائن کرلیا اور بطور آرجے اور پروڈیوسر میرا پہلا ہی ریڈیو شو’’ بی فوربھنگڑا‘‘ بے حد ہِٹ بھی ہوا۔ اس کے بعد جیو نیوز سے ’’بنانا نیوز نیٹ ورک‘‘ کی پیش کش ہوئی، تو فوراً قبول کرلی۔

ویسے مجھے ’’جیو تیز‘‘ پر بطور نیوز اینکر بھی کام کا تجربہ حاصل ہے۔بہرحال،جن دِنوں مَیں جیو تیز سے وابستہ تھا، تو لاہور کے ایک چینل سے ایک مزاحیہ شو کی آفر آئی، چوں کہ کراچی میں دس سال سے اکیلا رہ رہا تھا، تو اپنوں کے ساتھ رہنے کے لیے واپس لاہور چلا گیا۔ مگر اب گزشتہ برس سے کراچی ہی کو مسکن بنالیا ہے۔ نیز، شوبز انڈسٹری میں2014ء میں فلم ’’نامعلوم افراد‘‘ کے ذریعے اینٹری دی، جب کہ 2017ء میں ٹی وی اسکرین کے لیے پہلا ڈراما ’’مقابل‘‘کیا۔

س:اگر کہیں اپنا تعارف کروانا ہو تو کیا کہتے ہیں؟

ج: صرف ’’محسن عباس حیدر‘‘کہ میرا نام ہی کافی ہے۔

س:بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر،بہترین گیت نگار اور بیسٹ سنگر آف دی ائیر کے ایوارڈز حاصل کرچُکے ہیں،توخود کو پانچ سال بعد کہاں دیکھ رہے ہیں؟

ج: مَیں دُور اندیش آدمی نہیں،ایک ایک دِن کرکے جینے کا عادی ہوں ۔ میرا اللہ تعالیٰ پر توکل بےحد مضبوط ہے، اس لیے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کرخود کو ہلکان نہیں کرتا۔

س: 2020ء میں ایک فلم Once Upon a Time in Karachi ریلیز ہونی تھی، مگرلاک ڈاؤن کے سبب نہ ہوسکی، تو اس سے کیا توقعات وابستہ ہیں اور ڈائریکٹرسجاد علی شاہ کے ساتھ کام کا تجربہ کیسا رہا؟

ج:سجاد علی شاہ بہت اچھے اور بیبے(معصوم، مسکین)آدمی ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرکے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ فلم تکمیل کے مراحل طے کرچُکی ہے، بس چند فن کاروں کی ڈبنگ باقی ہے۔ اُمید ہے جلد ریلیز ہوگی، تو شائقین کے معیار پر پوری اُترے گی کہ اس کی کہانی بہت ہٹ کر ہے۔

س:لاک ڈاؤن کے دوران انسٹا گرام پر لائیوکنسرٹ بھی کیا، تو اس حوالے سے بھی بتائیں ، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی یا پھر دیگر گلوکاروں سے متاثر ہوکر کیا؟

ج: متاثر ہوکر نہیں،بس اپنے پرستاروں کے بےحد اصرار پر لائیو کنسرٹ کیا تھا۔حالاں کہ مجھے تو انسٹا گرام پر لائیو آنے کاآپشن تک نہیں پتا تھا۔

س: ڈراما سیریل’’دِل تنہا تنہا‘‘ میں ایک خود غرض انسان، جب کہ ’’گھمنڈی‘‘میں ایک ایسے انسان کا کردار ادا کر رہے ہیں جو دوسروں کوخوشی دینے کے لیے اپنی ذات کی نفی کردیتا ہے، تو حقیقی زندگی میں مزاج کیسا ہے؟

ج:مَیں حقیقی زندگی میں غالب(’’ گھمنڈی‘‘ کا کردار ) جتنا بے وقوف ہوں، نہ عدیل(’’دِل تنہا تنہا ‘‘کا کردار ) جتنا گھمنڈی۔ میرے مزاج میں ایک ٹھہراؤ ہے اورمَیں کم گو،تنہائی پسند ہوں۔

س:اپنی والدہ اور بیٹی کے انتقال کے بعد شدید ڈیپریشن کا شکار رہے، تو اپنے کچھ تجربات شئیر کریں گے کہ خود کوکیسے زندگی کے طرف لوٹنے کا حوصلہ دیا؟

ج: امّاں اور بیٹی کے انتقال نے مجھےتوڑ کے رکھ دیا ہے کہ کچھ زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ اُن سے خون رِستا ہی رہتا ہے، لیکن بہرحال، قدرت اور وقت انسان کو خودبخود آگے بڑھنے پر مجبور کردیتے ہیں،پھر ذمّے داریاں ،دوست احباب اور عزیز واقارب بھی زندگی کی طرف واپس لے آتے ہیں۔سو، مَیں بھی لوٹ آیا۔ یوں بھی فانی دُنیا میں جو روح آئی ہے، اُس نے لوٹ کر ربّ ہی کے پاس جانا ہے، تو مَیں امّاں اور بٹیا رانی سے وہیں ملنے کا متمنّی ہوں۔

س:گلوکاری بھی آپ کی شناخت ہے اور اداکاری بھی، تو ان میں سے کون سا شعبہ مزاج سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے؟

ج:مجھے لگتا ہے کہ آرٹ کا بنیادی شعبہ فنِ موسیقی ہے،تو میرا بھی پہلا انتخاب گلوکاری ہی ہے۔

س:ان دِنوں کیا مصروفیات ہیں، کس نئے پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں؟

ج: جیو کے لیے ایک ڈرامے کی شوٹنگ جاری ہے،جب کہ ڈائریکٹر علی حسن کی ایک فلم’’خبردار! اندر جانا منع ہے‘‘،پر کام ہورہا ہے۔ اس فلم میں میرے علاوہ کئی نئے اداکار ، جو طالبِ علم ہیں، کام کررہے ہیں۔ یہ دراصل ایک ویب سیریز ہے اور مَیں نے اس کے لیے ایک ریپ سونگ بھی تیار کیا ہے۔

س: کیا غیر مُلکی ڈراموں کی نشریات سے ہماری ڈراما انڈسٹری متا ثر ہورہی ہے؟

ج:ہرگز نہیں،کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ جو غیر مُلکی ڈرامے نشر ہورہے ہیں،اُن سےتو ہمیں تحریک مل رہی ہے۔ا ب یہی دیکھ لیں کہ ڈراما’’ارطغرل غازی‘‘ کے بعد کیسے رستے کُھلے ہیں۔ ہمایوں سعید ترکی کے ساتھ کوپروڈکشن کررہے ہیں، تو غیر مُلکی ڈراموں کی نشریات سے ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ہر شخص کا اپنا نصیب ہے۔ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ کوئی کسی سے اُس کا رزق نہیں چھین سکتا ہے۔

س:نیٹ فِلکس، ایما زون پر فلمیں ریلیز ہونی چاہئیں یا سینما گھروں میں؟

ج:دیکھیں، چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سینما گھر بند نہیں کرسکتےکہ اس کا کوئی متبادل نہیں ۔ مانا کہ اس وقت نیٹ فِلکس اور ایمازون کے کانٹینٹ بہت مضبوط ہیں، مگر بڑی اسکرین پر فلم دیکھنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔

س:کوئی ایسا لمحہ، جب کسی نے آگے بڑھ کر آپ کی مدد کی ہو؟

ج: زندگی کےکئی معاملات میں مجھے ایک بھائی کی کمی محسوس ہوتی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ کمی اشفاق احمد رانا کی صُورت پوری کردی، جسے جب بھی آواز دی، اپنے ساتھ ہی پایا۔

س:فیلڈ میں دوست زیادہ بنائے یا دشمن؟

ج: میری کم گوئی کی وجہ سے اکثر لوگ میرے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں، اس لیےحلقۂ احباب وسیع نہیں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مَیں نے زیادہ دشمن بنائے ہیں۔

س:کبھی اداکاری یا گلوکاری سے اُکتاہٹ محسوس ہوئی؟

ج:مجھے اداکاری یا گلوکاری سے نہیں، بس کبھی کبھارروٹین سے اُکتا ہٹ ہونے لگتی ہے۔ اکثر دِل چاہتا ہے، جنگلوں میں نکل جاؤں، سرسبز درختوں اور جھرنوں کے بیچ زندگی گزاروں کہ اس فیلڈ کے بعض پہلو ایسے ہیں، جن کے ساتھ میں کمفرٹ ایبل نہیں، مجھے ان سے شدید اُلجھن ہوتی ہے۔ اگر مَیں نے شوبز انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کی تو وجہ یہی پہلو ہوں گے۔

س:لاک ڈاؤن کا وقت کیسے گزارا؟

ج:بعض فیملیز نے لاک ڈاؤن کا وقت بہت خوش حال گزارا، تو اکثریت نے دُکھ، تکالیف اورمسائل کا سامنا کیا۔ تاہم، میرا وقت بہت اچھا، آسودہ گزرا کہ جو تھوڑی بہت بچت کی تھی، وہ کام آگئی۔

س: کس گلوکارہ کے ساتھ گانے کی خواہش ہے؟

ج: اگر میڈم نور جہاں حیات ہوتیں تو ان کے قدموں میں بیٹھ کر گاناگاتا۔ ویسے مجھے عابدہ پروین اور حمیرا چنا کے ساتھ گانے کی خواہش تھی، جو پوری ہوچُکی ہے۔

س: ان دِنوں کون سا گانا ذہن میں بسا ہوا ہے؟

ج:ایک پُرانا گانا ’’کہیں دیپ جلے‘‘ہی ذہن میں بسا رہتا ہے۔

س: آپ کا اپنامَن پسند،گانا ،ڈراما اورفلم کون سی ہے؟

ج: مجھے اپنےگانوں میں’’اُڈی جا‘‘،ڈراموں میں’’میری گڑیا‘‘اور فلموں میں’’نامعلوم افراد، پارٹ وَن‘‘ بےحد پسند ہیں۔

س: ستارہ کون سا ہے، سال گِرہ مناتے ہیں؟

ج:مَیں نے18اگست کو اس دُنیا میں آنکھ کھولی تو اس لحاظ سے ستارہ دلو ہے۔رہی بات سال گِرہ کی تو محسن نقوی کا شعر ہے؎’’آج کی شام، ہر سال اسی شام کے ساتھ…میری اکھڑی ہوئی سانسوں میں گِرہ لگتی ہے‘‘تو مجھے سال گِرہ منانے کا شوق نہیں،ہاں اہلِ خانہ ضرور مناتے ہیں۔

س:کس بات پر غصّہ آتا ہے؟ اور ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج: وقت اور حالات انسان کو بدل دیتے ہیں، سو اب مجھے زیادہ غصّہ نہیں آتا، لیکن جب کوئی جھوٹ بولے، غلط بیانی کرے اور بےوقوف بنائے تو غصّہ آتا ہے۔

س:اپنے کسی ڈرامے کا کوئی ڈائیلاگ، جو بہت اچھا لگا ہو؟

ج:ڈراما’’گھمنڈی‘‘ کا ایک ڈائیلاگ ’’جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا، اُن سے ڈرنا چاہیے‘‘ بہت پسند ہے اور یہ لائنز میرے فینز نے بھی ٹیگ کیں۔

س:سینئر اداکاروں میں سے کس کے ساتھ کام کی خواہش ہے؟

ج:مَیں اس معاملے میں بھی خوش نصیب ہوں کہ ثانیہ سعید اور قوی خان کے ساتھ کام کی خواہش ’’میری گڑیا‘‘اور ’’میراث‘‘ ڈراموں کے ذریعے پوری ہوئی۔ البتہ نعمان اعجازکے ساتھ ایک شو میں توکام کرچُکا ہوں، لیکن اب اداکاری میں بھی ان کے ساتھ اسکرین شئیر کرنے کی خواہش ہے۔

س:سوشل میڈیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج:گرچہ مَیں اپنا اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کرچُکا تھا، مگر پھر اپنے پرستاروں سے رابطے کے لیے ایکٹیو ہونا پڑا کہ بہرحال سوشل میڈیا کی اپنی اہمیت ضرور ہے، ہاں مگر مجھے یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے برانڈز، ڈائریکٹرز وغیرہ اپنے پراجیکٹس کے لیے فن کار کا انتخاب اُس کے سوشل میڈیا فالوورز دیکھ کر کرتے ہیں۔

س:اگر کبھی کچھ لکھنےکا خیال آئے تو موضوع کیا ہوگا؟

ج:مجھے اصلاحی موضوعات پسند ہیں، تو کوئی ایسا ہی موضوع منتخب کروں گا، جس سے اصلاح ممکن ہو۔ جیسے مَیں نےفلم ’’خبردار! اندر جانا منع ہے‘‘کا سیکنڈہاف لکھا ہے اور وہ اصلاحی نوعیت ہی کا ہے۔

س: شاعری بھی کرتے ہیں، تو پسندیدہ شعرکون سا ہے؟

ج:مجھے اپنا ایک قطعہ بےحد پسند ہے؎’’مَیں تیری داستاں کا تھا ہی نہیں…اس زمیں، آسماں کا تھا ہی نہیں…ایک جنجال ہے جہانِ ِخراب…مَیں جہاں ہوں، وہاں کا تھا ہی نہیں‘‘۔

س:کوئی ایسا واقعہ، جس نے زندگی بدل دی؟

ج:میری والدہ کا ہمیشہ کے لیے چلے جانازندگی کا ایک ایسا موڑ تھا، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔

س:آج کل کے ڈراموں کے بارے میں کیا کہیں گے؟

ج:گرچہ مَیں بھی ڈراما انڈسٹری کا حصّہ ہوں، مگر سچ یہی ہے کہ تعداد کی دوڑ میں معیار بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔

س:زندگی سے کیا سیکھا؟

ج:زندگی نے اب تک جو سکھایا، اُس کا لبِ لباب یہی ہے کہ سب سے قیمتی شے ذہنی سُکون ہے،وہ کسی بھی قیمت پر ملے، لے لو۔

س:اسپورٹس سے دِل چسپی ہے؟ کون سا کھیل، کھلاڑی پسند ہے؟

ج: مجھے کھیلوں میں کرکٹ اور کھلاڑیوں میں وسیم اکرم پسند ہے۔

س:اگر کسی بات سے شدید دُکھ پہنچے تو معاف کردیں گے یا بدلہ لیں گے؟

ج:بدلے کا بوجھ اُٹھانا بہت مشکل ہے، اس لیے معاف کردوں گا۔

س:ایک عورت کو مختلف رشتوں میں کیسے بیان کریں گے؟

ج:عورت ہر رشتے میں معتبر ہے، خاص طور پر ماں کے رُوپ میں تو وہ اپنی معراج پر ہوتی ہے۔ مَیں جب اپنی ماں کے معمولات دیکھتا تھا،تو حواس باختہ ہوجاتا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ عورت، مَرد سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔وہ چاہے کم زور، بیمار ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی سب کا خیال رکھتی ہے۔

س: مَرد، عورت میں کسی بھی قسم کی تفریق کے قائل ہیں اور دونوں میں سے کِسے کسی بھی اعتبار سے کم تر یا برتر تصوّر کرتے ہیں؟

ج:مَیں تفریق کا قائل نہیں۔ مرد و عورت دو انسان ہیں، جو خُوب صُورت تب ہی لگتے ہیں، جب کاندھے سے کاندھا جوڑ کر چلتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ رہی بات عورت کے کم تر یا برتر ہونے کی، تو حضورِ پاکﷺ جن کے لیے اُٹھ کھڑے ہوجاتے تھے، وہ ایک خاتون ہی تھیں، تو ایک عورت کے مقام کی اس سے بڑی گواہی اور کیاہو سکتی ہے۔

س: کسی سیاسی شخصیت سے متاثر ہیں،اگر ہیں،تو کیوں؟

ج:وزیرِ اعظم عمران خان سے۔ مَیں ان کے متاثرین میں سے نہیں، اُمیدواروں میں سے ہوں۔مجھے ان کی صاف گوئی اور بہادری پسند ہے۔

س: موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر ایک جملے میں بیان کرنے کو کہا جائے تو…؟

ج:کئی برسوں کی گندگی صاف کرنے میں ابھی وقت لگے گا اور موجودہ حکومت ثابت قدمی سے یہ گند صاف کررہی ہے۔

س: اپنے والدین کے لیےکچھ کہنا چاہیں گے؟

ج:صرف’’شکریہ‘‘ ۔

س: آپ کی کوئی انفرادیت، اپنی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کریں؟

ج: مجھے لگتا ہے میرا فن ہی میری انفرادیت ہے۔

س: کوئی پیغام؟

ج: کورونا وائرس کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ہے، اپنا خیال رکھیں، ایس او پیز پر لازماً عمل کریں اور میری نئی فلم’’ خبردار !اندر جانا منع ہے‘‘ ضرور دیکھیں۔