دیر نہ ہو جائے کہیں!

June 03, 2021

افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس حوالے سے اب کچھ چیزیں واضح ہونے لگی ہیں، جو ان خدشات کو درست ثابت کرتی ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ پاکستان کے لئے پہلے سے زیادہ مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اگلے روز نیو یارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ اتحادی افواج کے انخلا سے پہلے ہی افغانستان کے بہت سے علاقوں میں طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے اور دستبرداری کا عمل تیز ہو گیا ہے اور افغانستان کے کئی علاقوں پر طالبان کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے علاقوں پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی اس مرتبہ تبدیل کر دی ہے۔ پہلے وہ اپنے مخالفین یا حمایت نہ کرنے والے لوگوں کو مار دیتے تھے لیکن اب وہ افغان فوج، پولیس اور دیگر سرکاری اداروں اور محکموں میں کام کرنے والے لوگوں سے لکھوا لیتے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی افغان حکومت کی سرکاری نوکری نہیں کریں گے۔ ان سے حلف لیا جاتا ہے کہ وہ کبھی طالبان کی مخالفت نہیں کریں گے۔ ان لوگوں کے بیانات کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ ان کے موبائل فون نمبرز، گھر کے پتے اور گھر کے افراد کی تمام تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کارروائی کے بعد ان کی جان بخشی کی جاتی ہے فوج، پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے اہل کار اپنا تمام اسلحہ دفاتر اور سارا ریکارڈ طالبان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس طرح افغانستان کے دیہی علاقے تیزی سے طالبان کے تصرف میں آ رہے ہیں۔ کئی سیکورٹی پوسٹس پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے اور شہروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ میں طالبان کے زیر تصرف علاقوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایک امریکی انٹیلی جنس ادارے نے رپورٹ دی تھی کہ اگر افغانستان کے تمام متحارب گروہوں کے درمیان پاور شیئرنگ کا فارمولا طے نہ کیا گیا تو پھر دو سے تین سال میں پورے افغانستان پر طالبان قابض ہو جائیں گے۔ اس رپورٹ میں جو خدشہ ظاہر کیا گیا، وہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ اب امریکا کو بھی اس بات کی پروا نہیں ہے کہ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان سمیت اس خطے میں کیا ہو گا۔ جو کچھ بھی ہو گا، وہ شاید امریکا کے ’’ نئے گریٹ گیم ‘‘ کا حصہ ہو۔ بہرحال پاکستان کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کی صورت میں ہمارے کچھ حلقے اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ طالبان کا پاکستان کیلئے نرم گوشہ ہو گا۔ یہی حلقے طالبان کے ساتھ امریکا کے مذاکرات کو بھی پاکستان کی پالیسیوں کی فتح قرار دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان حلقوں کا موقف کسی خاص تناظر میں درست ہو لیکن وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کیلئے بہت سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثلاً

1۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کی صورت میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کے انتہا پسند گروہوں کو بھی شہ ملے گی اور وہ سرحدی قبائلی علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی گروہوں میں یہ سوچ پیدا ہو گی کہ اگر افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو سکتی ہے تو پھر دوسرے ممالک میں کیوں نہیں۔

2۔ طالبان میں اکثریت کا تعلق ایک ہی قومیتی اور نسلی گروہ سے ہے۔ یعنی زیادہ تر ان میں پختون ہیں۔ افغانستان کثیر القومی اور کثیر النسلی ملک ہے اور گزشتہ چار دہائیوں سے وہاں قومیتی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم بہت گہری ہو چکی ہے اور خطرناک فالٹ لائنز ( Fault Lines ) کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ امر افغانستان میں خانہ جنگی کا سبب ہو سکتا ہے اور اس خانہ جنگی کی آگ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ افغانستان میں پختون اور غیر پختون تضاد سے پاکستان میں نہ صرف پختون فیکٹر زیادہ نمایاں ہو گا بلکہ اس سے یہاں فرقہ وارانہ تضادات اور تصادم کے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

3۔ بعض بین الاقومی تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بھارت کے سیکورٹی، سیاسی اور معاشی مفادات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا کیونکہ بھارت اب تک طالبان کے مقابلے میں افغانستان کی حکومتوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ طالبان کے زیادہ تر گروہ بھارت مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ اگرچہ کچھ گروہ بھارت نواز بھی ہیں۔ بھارت یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کے حامی طالبان کا گروہ افغانستان پر قابض ہو سکتا ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے انسدادی حکمت عملی (کائونٹر اسٹرٹیجی) اختیار کر سکتا ہے۔ اس سے پاک بھارت پراکسی وار شروع ہو سکتی ہے۔ بھارت اپنے حامی طالبان اور غیر پختون دیگر گروہوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی وار لڑ سکتا ہے اور پاکستان مجبورا اس کا جواب دینے کے لئے طالبان کا ساتھ دے سکتا ہے اور اپنی اس پرانی حکمت عملی کی طرف اسے دھکیلا جا سکتا ہے، جس کا خمیازہ وہ اب تک بھگت رہا ہے۔ یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ اس پراکسی وار کا میدان 2670کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد کے دونوں طرف کے علاقے ہوں گے۔ اس پراکسی وار میں روس، چین، ایران اور خود امریکا بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کیلئے بڑے چیلنجز ہو سکتے ہیں جو شاید افغانستان کے چیلنجز کی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ پاکستان بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں ویسے بھی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ معاشی حالات بھی خراب ہیں۔ مغرب، افغانستان سے عدم استحکام اور بدامنی کے اٹھنے والے طوفان کی لپیٹ میں پاکستان زیادہ آسکتا ہے۔ اس صورت سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے صرف پہلے کی طرح سیکورٹی کا مسئلہ نہ سمجھا جائے۔ اس پیچیدہ اور کثیر الجہتی اثرات کے حامی مسئلے کو حل کرنے کیلئے وسیع تر قومی سیاسی حکمت عملی وضع کی جائے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو اس حکمت عملی پر غور کرنے کیلئے آج سے ہی مل بیٹھنے کا ارادہ کرلینا چاہئے۔