خان اور نوجوانانِ پاکستان کا اسٹیک؟

June 06, 2021

دو سوال اٹھانے کی جسارت کیا کی ’’دوستوں‘‘ نے تو آسمان ہی سر پر اٹھالیا۔ 73 سال میں جوہم کر نہ سکے وہ زمانۂ تبدیلی میں بھی کرپانے سے قاصر کیوں؟ مگر جب یہ سوچتا ہوں کہ ہم جوہری قوت ہیں اور دنیا کا نظریاتی و جغرافیائی چوک بھی ۔اور 2018 میں جب ہم الیکشن لڑنے کے درپے تھے تو ایک دلکش رپورٹ سامنے آئی کہ تاریخ میں پاکستان اس مقام پر آکھڑا ہوا ہے جہاں اس کے ہاں نوجوانوں کا ریکارڈ عالم میں نمبر ون ہوگیا ہے یعنی 64 فی صد لوگ 30 سال سے کم عمر کے ہیں اور 15 سال سے 29 سال کی عمر کی شرح پاکستان میں 29 فیصد ہے۔ 64 فیصد میں سے 31 فیصد 15 سال سے کم عمر کے ہیں پھر بھی 29 فیصد کڑیل جوان بنتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیشہ حوصلہ ہوا کہ ایک دن تبدیلی یقیناً ہماری دہلیز چومے گی۔ مجھے لگا تھا کہ تبدیلی والے شاید اس 29 فیصد میں سے 10 فیصد ہی کو قومی دھارے میں شامل کرلیں گے سو نمایاں تبدیلی نہ سہی تبدیلی کی خشتِ اول تو رکھی جاسکے گی۔

امید کا پیام آنکھوں میں چمکتا دمکتا رہنا چاہئے سو ہے مگر وہ حکومت کہ جس کے راستے کو ہموار کرنے کیلئے بھٹو کے جیالوں کی کثیر تعداد نے اپنا کردار ادا کیا، جماعت اسلامی کے گھرانوں میں ووٹ کی نقب لگی، اے این پی کے امیدواروں کے بچے بلا اٹھائے پھرے اور بےشمار مسلم لیگیوں نے نواز شریف کو فقط بزنس مین اور چوہدری برادران کو محض دھڑے باز مان کر تحریک انصاف کی بیعتِ انقلاب کرلی مگرنتیجہ کیا نکلا، ٹائیں ٹائیں فش! دل کی باتیں منہ زور ہوکر زباں پر آنے ہی لگی ہیں تو کہہ لینے دیجئے کہ اقامہ پر سزا ہمیں بھی سمجھ نہ آئی مگر یہ حب علی کے بجائے بغض معاویہ ہمارے گرد بھی گھیرا تنگ کر چکا تھا گویا تبدیلی کی کوئی کرن کسی طلوعِ آفتاب میں ہم بھی چاہتے تھے۔ واہ رے مقدر کوئی تو سیاسی خواب شرمندہ تعبیر ہوتا‘ ہم بھی دیکھتے! اتنی قومی سیاسی و انتخابی سپورٹ اور قوت کی اتنی پشت پناہی میں بھی تبدیلی منزل پر نہ سہی مگر آغاز سفر تک بھی کیوں نہ پہنچی؟

کالمی بھول بھلیوں میںکہیں وہ دو سوال رہ نہ جائیں جن کے اٹھانے پر دوست سیخ پا ہوئے سو پہلے وہ سوالات :

(1) کبھی کبھی سوچتا ہوں گر عمرانی دورِ حکومت نہ آتا تو لوگ زرداری اور نواز سے نفرت میں حد سے گزر جاتے؟ (2) میں نواز شریف کو عظیم لیڈر ماننے میں جتنا بھی بخیل ہوں لیکن عمران خان کے مقابلے میں اُسے جانے کیوں بڑا لیڈر سمجھتا ہوں؟

ابھی ایک تیسرا سوال دل ہی میں انگڑائیاں لیتا رہ گیا کیونکہ درج بالا سوالوں ہی نے حشر نشر کردیا۔ ہمارے دوست اس قدر نازک طبع ہیں کہ صرف فرمائشی پروگرام ہی پر کان دھرتے ہیں، بات ذرا من پسندی سے ادھر ادھر ہو کر تو دیکھے پھر دیکھئے ان کی بے نیامی کی تاب کون لا پاتا ہے؟

ہماری نیم چاہت بھی عشق کا سراپا اور سیاپا ہی ہوئی، بھلے ہی ہم مذکورہ سوالات پر گالیاں کھا کر بےمزہ نہ ہوئے اور مانا کہ رقیب کے لب شیریں ہی ٹھہرے، پر کوئی یہ تو بتادے کہ ہم نے نواز و زرداری کے خلاف ایڑی چوٹی کا ’’نیبانہ‘‘ زور لگا کر ملک و قوم کیلئے کچھ پایا یا اپنی لیاقت اور فراست کی سیاسی و جمہوری کمی کو چلمن کے پیچھے بٹھاتے اور سجاتے رہے؟ نوجوانوں کی 29سے 62فیصد شرح سے کیا استفادہ کرلیا؟ معیشت کے جادوگرانہ اعداد و شمار پیش کرکے مہنگائی کا کون سا جن بوتل میں بند کردیا؟ تین سال میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے نین نقش ہی بدل ڈالے، اب عالم یہ ہے کہ ایچ ای سی کو آنکھیں نہیں ملتیں اور ہمیں چہرہ نہیں ملتا! احسن اقبال و رانا ثناءاللہ کیسوں میں نیب اور حکومت رسوا نہیں ہوئے کیا اور زرداری و خورشید شاہ کےکیسوں میں راگ کیا ہے اور راگنی کیا؟ سعودیہ و قطر اور ملائشیا و ایران سے سفارتی فاصلوں میں اضافہ اور امریکی صدر ہمارے ہیلو ہائے اور میل ملاپ سے گریزاں ہیں، کیوں؟ سندھ کی صوبائی خود مختاری کو کھٹکھٹائے بغیر وفاق کو مزہ نہیں آتا۔ یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے، ہم جمہوریت میں ہیں یا جمہوری سسٹ میں؟ وہ جو نون لیگ نے میڈیا کو لونڈی بنانا چاہا تھا ہم نے اس سے بھی سبق نہیں سیکھا اور چاہتے ہیں نون لیگ کی طرح مکافات عمل کا مزا ضرور چکھیں کہ کوئی کسر رہ نہ جائے۔ چلیں، یہ سب بزنس مینوں اور کرپٹ قبضہ گروپ سیاست کاروں کو تو زیب دیتا تھا تبدیلی والوں کو دیتا تھا یا دیتا ہے؟ ضروری تھا کہ جن کے الیکٹ ایبلز لئے تھے ان کے سیاسی اطوار بھی لیتے اور وہ چوغے بھی زیب تن کرتے ؟

تیسرے سوال پر جانے سے پہلے ایک سماجی عرض بھی کردوں گر کوئی سیاسی نہ سمجھے۔ ہمارا ایک دوست ضلعی ہیلتھ کنٹرولر تھا ، کہنے لگا، اگر ہمیں سیاستدانوں کا خوف نہ ہو کہ وہ سماجی سطح پر چار بندوں کے سامنے بےنقاب نہ کردیں تو ہم کئی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے دنوں میں مالک بن جائیں اور عوام کو کچھ سمجھیں ہی ناں، جہاں تک عدالتوں اور بیوروکریسی کا معاملہ ہے انہیں ہمیں چکمہ دینا آتا ہے۔ دوستو! یہ بات ایک ڈرگ کنٹرولر کی ہے کسی کمشنر یا ایس ایس پی کی نہیں‘ باقی آپ سیانے ہیں کہ سماجیات و سیاسیات کا کیسا چولی دامن کا ساتھ ہے!

تیسرا ناقابلِ ہضم سوال اسٹیک اور اسٹیک ہولڈرز کی حساسیت اور اساس کے حوالے سے ہے۔ یہ اسٹیک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو اپنی جگہ لیاقت و سیاست اور دیانت و استقامت کو بھی جنم دیتی ہے۔ خواص و عوام کا اسٹیک سماجیات و سیاسیات میں ان کا رُخ متعین کرتا ہے، مال و زر، اولاد، سیاسی میراث کو کسی کسوٹی پر لانا ہوگا یا ان پر تھرمامیٹر رکھنا ہوگا۔ جب تک میڈیاکر اور لیڈر کے اسٹیک علاوہ ازیں نوجوان اور لیڈر کے اسٹیک میں مماثلت نہ ہو باہمی فہم ، لیڈر شپ اور عوامی ترقی کے خلا کا خاتمہ ممکن نہیں۔۔۔ کیا وزیراعظم کی اولاد اور سیاسی و سماجی و خاندانی میراث کا اسٹیک اور نوجوانانِ پاکستان کا اسٹیک، اور عام آدمی کا اسٹیک یک رنگ ہیں؟