25ہزار کا لائسنس

June 08, 2021

پچھلے 50سال میں انسان نے جتنی ترقی کی ہے، اِس سے قبل کبھی نہیں کی۔ اِس قدر تیز ترین ترقی میں ٹیکنالوجی کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اِن 25برسوں میں ہر کچھ عرصہ بعد ایسی ٹیکنالوجی سامنے آئی جس نے نہ صرف ہمارے کام کرنے کے طریقے کو یکسر بدل کے رکھ دیا بلکہ ہمیں ترقی کی راہ میں کئی قدم آگے لے گئی۔ کمپیوٹر، فیکس مشین، موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ ایسی ٹیکنالوجی کی چند مثالیں ہیں لیکن اِس ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہمارا رویہ کہ ہم کتنی جلدی اِسے اپناتے ہیں، اِس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں کتنا آگے جاتے ہیں یا کتنا پیچھے رہ جاتے ہیں؟

1964میں پہلی جدید فیکس مشین مارکیٹ میں آئی۔ اُس دور میں کمپیوٹر چونکہ اتنے عام نہیں تھے، مہنگے بھی بہت تھے اور انٹرنیٹ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا اِس لئے فیکس مشین کے ذریعے ہی ایک دفتر سے دوسرے دفتر کاغذات بھیجے جا سکتے تھے۔ جب پوری دنیا اِس مشین سے فائدہ اُٹھا رہی تھی تب بھی پاکستان میں اِس ٹیکنالوجی کو اپنانے کے حوالے سے تاخیر کی گئی۔ آخر کار جب اِس مشین کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی تو کسٹمز کی طرف سے نِت نئے مسائل کھڑے کر دیے گئے۔جب کسٹمز اور ٹیکس کے جھمیلے ختم ہوئے تو اِس کے لئے 25ہزار کا لائسنس مقرر کر دیا گیا پھر فیکس مشین کے استعمال کے لئے الگ فون لائن کی شرط عائد کر دی گئی۔ اِن سب اور کئی دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے ہم بروقت اِس ٹیکنالوجی سے مستفید نہیں ہو سکے حالانکہ ہم نے بعد میں دیکھا کہ فیکس مشین نے دفتری امور کی انجام دہی میں ناقابلِ فراموش سہولت پیدا کر دی تھی۔

50سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے حوالے سے ہمارا رویہ ابھی تک تبدیل نہیں ہو سکا۔ اپنی سستی، نااہلی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی اِس روش کی وجہ سے ہم اپنے لوگوں کو ٹیکنالوجی کے فوائد سے محروم رکھتے ہیں۔ اب جہاں نہ صرف پاکستان کے اندر موبائل فون کو عوام کے لئے سستے سے سستا ہوناچاہئے تھا وہاں باہر سے لائے جانے والے موبائل فون پر بھی ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگا کے 40ہزار روپے تک کی وصولی کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں جب تک 3جی اور 4جی ٹیکنالوجی آئی تب تک افغانستان کے عوام اِس سے مستفید ہو چکے تھے۔ آج بھی پاکستان کے کئی علاقوں میں اِس ٹیکنالوجی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دنیا 5جی ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہےاور ہم ابھی تک اُس کی لائسنس فیس زیادہ سے زیادہ رکھنے اور پھر بھی آکشن نہ کرنے کے چکروں میں پڑے ہیں۔ کرپٹو کرنسی سے دنیا میں لوگ ارب پتی بن چکے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ابھی تک اِسے کئی قسم کی قدغنوں کا سامنا ہے۔ جب دنیا بھر میں ایپل کمپنی نے آئی فون میں وڈیو کال (فیس ٹائم) کا فیچر متعارف کروایا تو پاکستان میں کافی عرصہ تک اِس فیچر کے استعمال پر پابندی لگی رہی جو کچھ عرصہ قبل ہی ہٹائی گئی ہے۔ پاکستان میں اِس پابندی کی وجہ سے لوگ باہر سے فون منگوا کر اُس میں فیس ٹائم استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ پھر ہر موبائل فون میں وڈیو کال کی سہولت اور اس طرح کی کئی ایپلی کیشنز سامنے آ گئیں لیکن پاکستان میں پھر بھی فیس ٹائم پر پابندی برقرار رہی۔

3ڈی پرنٹنگ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے کوئی بھی چیز پلاسٹک سے پرنٹ کی جا سکتی ہے۔ اِس کا سب سے بڑا فائدہ انجینئرنگ اور بچوں کو اسکول میں پڑھانے میں ہوتا ہے۔ 3ڈی پرنٹر ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اِس کا طلبہ اور کاروباری افراد دونوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ 3ڈی پرنٹنگ کو عام ہوئے بھی دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اِس لئے بہت سے ممالک، کارخانے اور تعلیمی ادارے اِس سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ چند روز قبل کسی نے ٹویٹ کیا تھا کہ پاکستان میں 3ڈی پرنٹر منگوانے کے لئے سیکورٹی ایجنسیوں سمیت 9اداروں کی مشترکہ کمیٹی سے NOCدرکار ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ 10سال پرانی ٹیکنالوجی جو دیگر ممالک میں پرائمری اسکولوں میں استعمال ہو رہی ہے، ہم آج بھی اُس کےلئے NOCپر بحث کر رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ NOCجاری کرنے والی کمیٹی میں شاید ہی کسی کو پوری طرح 3ڈی پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی کے بارے میں پتہ ہوگا۔ اِس ٹویٹ کے نیچے کسی نے لکھا تھا کہ اِس پرنٹر سے اگر کوئی ہتھیار یا پستول ہی پرنٹ کر لے تو؟ جس کا کسی نے بالکل صحیح جواب دیا تھا کہ جتنے کا یہ پرنٹر ہے اُس سے کم میں پاکستان میں درجنوں بندوقیں گولیوں سمیت بلکہ گرنیڈ اور راکٹ لانچر بھی مل جاتے ہیں جو پلاسٹک کے پرنٹ کئے ہوئے کسی بھی ہتھیار سے زیادہ مہلک ہو سکتے ہیں۔

یہ رویہ ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم چونکہ ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہیں اِس لئے ہم نئی آنے والی ہر ٹیکنالوجی کے بےتحاشا فوائد کی بجائے اُس کے غلط استعمال کے امکانات کو سامنے رکھتے ہیں۔ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر کوئی ایک افسر یا شخص اتنی بڑی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ کسی بھی ادارے کاایک سترہویں ، اٹھارہویں اسکیل کا افسر خود سے کوئی پالیسی بنانے کے حوالے سے ذرا رِسک نہیں لیتا کیونکہ اگر کل کو اُس کے اُٹھائے کسی اقدام سے کوئی مسئلہ بن گیا تو سارا الزام اُسی پر آ جائے گا۔ ہمیں ترقی اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لئے مستحکم پالیسی سازی کرنی چاہئے جو کہ صرف اعلیٰ حکام کر سکتے ہیں جس کے لئے سمجھ، بوجھ اور ویژن کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنے اِس رویے کو تبدیل نہ کیا تو دنیا کہاں سے کہاں چلی جائے گی اور ہمیں ہر نئی ٹیکنالوجی کے لئے فیکس مشین کے 25ہزار کے لائسنس کی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور جس طرح آج ہم فیکس مشین کے لئے 25ہزار کا لائسنس جاری کرنے والی بات پر ہنستے ہیں کل کو ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمارے آج کے اِس رویے پر ہنسیں گی۔