سیاست کی نزاکتیں یا حماقتیں؟

May 05, 2016

ہمارا گمان تھا کہ مارشل لائوںکے دھچکے کھانے کے بعد پاکستانی سیاست میچورٹی کا خاصا سفر طے کر چکی ہے اور اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں پارلیمنٹ کی بالادستی جمہوریت کی سر بلندی اور آئین و قانون کی حکمرانی سے سرموانحراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سیاستدانوں کے باہمی چاہے ایک سوایک اختلافات ہونگے لیکن مندرجہ بالا جمہوری اقدار، عوامی حاکمیت یا اقتدارِ اعلیٰ پر بنیانِ مر صوص کی طرح سب یکمشت یا ایک ہونگے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ سیاسی نا بغوںیا نا بالغوں کی برکت سے یہ آئیڈیل صورتحال ہنوز ایک خواب ہے اور آنے والے ماہ و سال میں بھی ایک خواب ہی معلوم ہوتی ہے سابق کھلاڑی کی بے تابی تو قابلِ فہم ہے کہ اس کے نزدیک بقول رانا تنویر چاہے سارا گائوں مر جائے لیکن نمبرداری اسے بہر صورت ملنی چاہئے اس کی نظر میں جائز نا جائز یا حلال حرام کی کوئی تمیز نہیں رہی بلکہ عشق اور اقتدار کی جنگ میں ڈڈی مچھی سب برابرہیں۔ عوام جائیں بھاڑ میں اسے اگرکسی کی خوشامد کر کے بھی وزارتِ عظمیٰ کا سنگھا سن نصیب ہو جائے تو یہ کوئی ناگوار یا مہنگا سودا نہیں ہے۔
ہمیں اس نوجوان شہزادے کی اٹھک بیٹھک بھی سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی وراثت کوبے تابی کے ساتھ چھین لینا چاہتا ہے تیتر بتیر پارٹی کو منضبط کرنے کا بھی اس کے علاوہ اسے کوئی نسخہ نہیں سوجھ رہا ہے کہ جیسے تیسے بھی حکومتِ وقت کے خلاف منہ بھر کر بولا جائے تاکہ خود اسے اہمیت بھی ملے اور پی پی کی گمشدہ بھیڑیں بھی اپنے اصل ریوڑ میں واپس آتی دکھائی دیں۔ سابق وزیراعظم کی بھی سمجھ آتی ہے کہ اس کا مقتدر چہرہ جس طرح سب سے بڑی کورٹ میں داغ دار ہوا کیوں نہ تیسری مرتبہ آنے والے موجودہ عوامی مقتدر پر بھی اسی طرح کی سیاہی ملی جائے جس سے اس کا حساب برابر ہوسکے اور اس کی دکھی روح کو ہلکا سا ہی سہی ایک نوع کا قرار تو نصیب ہو جائے۔ایسا ہی معاملہ نام کے راجہ کا بھی ہے بڑے بیرسٹر کی بے چینی بھی قابلِ فہم ہے کہ انہیں الیکشن میں جس نوع کی خواری اٹھانی پڑی اپنے گھر کے اندر بیگم صاحبہ کی پریشانی بھی دیکھی تو طبیعت کے ساتھ سوچ میں بھی تلخی آنی ہی تھی نیز شدت پسندانہ آواز بلند کرنے سے اگر پارٹی میں قد کاٹھ بڑھتا ہے تو کیا مضائقہ ہے ماسی جمہوریت کی قیمت پر بھی اگر بڑا ذاتی فائدہ پہنچ سکتا ہے تو کوئی بری بات نہیں ہے اور جمہوریت کی گاڑی بھی کہیںنہیں بھاگی جارہی جب کوئی ایسی خرابی آئے گی تو دیکھا جائیگا۔ اسلامی بھائی بھی پیچھے کیوں رہیں آخر جمہور نے ان کے ساتھ کون سی اچھائی کی ہے جمہوری راگ الاپنے سے پہلے کونسی نیلم پری ان کے ہاتھ لگی ہے جو آئندہ لگے گی۔اب متنازع بلوں کو لاتے ہوئے جمہوریت بی بی نے ویسے ہی موڈ خراب کر دیا ہے لندن سے اردو کی آواز بلند ہوتی تھی اس کا گلا تو ما قبل ہی گھونٹا جا چکا ہے کیا جمہوری نیلم پری کے لئے آواز گجرات سے بلند ہو گی؟ اور کس برتے پر؟۔ پیچھے بچا کون ہے اللہ کا فضل ؟ اس بیچارے کا نیلم پری کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ جس سے وہ بے چین ہو گا۔ البتہ بغضِ معاویہ کو کام میں لاتے ہوئے جتنی حب علی اس سے کروائی جا سکتی ہے اتنی آپ کروا لیجیے۔
اسی طرح بوٹوں کے خوف سے جو شخص پردیس میں ادھر ادھر بھاگا پھرتا ہے اس سے روابط ضرور کیجیے بدلے ہوئے حالات میں اگر کوئی پھونک مار سکتا ہے تو وہی ہے قائد حزبِ اختلاف بھی اس کی دسترس سے باہر نہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اس پارٹی کی قیادت پر آخر کونسی ایسی آفت ٹوٹ پڑی ہے جو انہیں پستیوں میں دھکیلتے ہوئے لال حویلی تک لے گئی ہےاور آج جن کے وہ سہارے ڈھونڈ رہی ہے۔ رسوائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مانا کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ دشمن لیکن ہوش و ہواس سے عاری ہونے کا نام بھی سیاست نہیں ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ آج آپ ملک سے باہر رہنے پر کیوں مجبور ہیں؟ کیا آپ کو اپنے پانچ سال بھول گئے ہیں کتنی ’’عزت‘‘ کے ساتھ آپ نے حکمرانی کی ہے؟ ایک کوراجہ رینٹل جیسے خطابات ملے تو دوسرا ما بعد روتے ہوئے بولا کہ میں کیا کرتا آ دھا کیک یہ لے گئے آدھا وہ لے اڑے میں تو نام کا پر دھان تھا اقتدار تو کہیں اور تھا۔ کیا ایسی حکمرانی کے حصول سے بہتر نہیں تھا کہ آپ حضرات تین حروف بھیجتے ہوئے عوام کے پاس چلے جاتے؟ کم از کم چہروں پر نا اہلیت کے داغ تو نہ لگتے یہ بھی یاد رہے کہ یہ پانچ سالہ سنگھا سن بھی محض اس لئے حاصل رہا کہ آپ کی حزب اختلاف نے تمام تر طعنوں کے باوجود جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہنے کا کم از کم بھرم تو قائم کئے رکھا اور آج آپ سب کچھ جانتے بوجھتے کیا کرنے جا رہے ہیں۔
کرپشن بلا شبہ نا قابل معافی جرم ہے لیکن اس مقدس نعرے کے لبادے میں جو منصوبہ سازی ہو رہی ہے وہ آئین اور جمہوریت کے حق میں زیادہ بڑا جرم ہے اس تماتر جوار بھاٹا کے باوجود آپ کو اپنا وزن خود اٹھانا ہوگا۔ چاہے اس میں اپنی ذات کی نفی ہی کیوں نہ کرنی پڑ جائے مت بھولئے کہ اس میں غلطی آپ کی اپنی بھی ہے اب اس کا کفارہ ادا کرنے کے لئے خود کو تیار کیجئے سنبھلئے اور سوچئے اگر ایک راہ بند ہو رہی ہے تو اس کا قطعاََ یہ مطلب نہیں کہ بچائو کے لئے کوئی اور راہ بچی ہی نہیں ہے ابھی آپ بند گلی میں نہیں گئے ہیں ایک چوراہے پر ہیں مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کو یہ سجھائی نہیں دے رہا کہ بچائو کیلئے بہتر گلی کونسی ہے اپنے قابلِ اعتماد احباب کو جمع کیجئے اور الجھی ڈور کو حاضر دماغی سے سلجھائیے۔ گاندھی جی کے پاس تو کوئی عہدہ نہیں تھا سونیا گاندھی تو کل کی نہیں آج کی بات ہے جس نے وزارت عظمیٰ ایک سکھ کو دئیے رکھی اور اپنے پاس کانگریس پارٹی کی قیادت رکھی۔ یوں کنٹرول ان کے اپنے ہاتھ میں رہاہمارے یہاں آخر بوقت ضرورت و مجبوری اس نوع کا اسلوب کیوں نہیں اپنایا جا سکتا ۔درپیش حالات میں مخلصانہ و ہمدردانہ مشورہ یہی ہو سکتا ہے کہ اگر حالات مزید خرابی بسیار کی طرف بڑ ھتے ہیں تو اردو محاورے کے مطابق ’’جیسا منہ ویسی چپت‘‘ لگائی جائے۔