چُوری کھانے والے مجنوں

June 24, 2021

پیارے پڑھنے والو، یوتھیو، متوالو، جیالو، قدر دانو، بے قدرو، مہربانو، پاکستان کا موجودہ تاریخی سیاسی ، انصافی، احتسابی منظر نامہ آپ سب کے سامنے ہے۔ اس بارے میں کسی یک طرفہ رائے، تنقید، تبصرے کی ضرورت نہیں کہ میاں نواز شریف کا طرز حکمرانی اچھا تھا یا بی بی شہید بے نظیر بھٹو بہترین جمہوریت پسند حکمران تھیں۔ اس درمیان میں جو آمرانہ ادوار گزرے ان پر لکیر پیٹنا اس لئے بھی ضروری نہیں کہ جس نے بھی اس قوم پر شب خون مارا وہ اپنے انجام کو پہنچا اور جوکوئی اپنی بساط کے مطابق تھوڑا بہت اچھا کر گزرا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہمارے بس میں تو صرف اتنا ہے کہ حال میں رہ کر مستقبل سنوارنے کے بارے میں کوئی رائے قائم کرسکیں۔ ماضی میں ہم نے جو کچھ کھویا پایا اس نفع نقصان کی تلافی اسی صورت ممکن ہے کہ آج کی بات کریں کہ اگر آج اچھے فیصلے کئے جائیں گے تو یقیناً ان کے ثمرات ہماری آئندہ نسلوں کو منتقل ہوں گے۔ خان اعظم کا دورِ حکومت، ہمارا حال اور مستقبل انہی کے فیصلوں سے جڑا ہے۔ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کریں کہ کیا آپ خانِ اعظم کی حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں ملک کے داخلی ، خارجی اور معاشی محاذوں پر جو فیصلے کئے جارہے ہیں، وہ ٹھیک ہیں اور ان کے ثمرات آئندہ نسل کو منتقل ہوسکیں گے تو حقائق پر مبنی دلائل سے قائل کیجئے۔ عوام کے لئے یہی ایک مشورہ ہے کہ وہ اپنے ذہن سے یہ بات بالکل نکال دیں کہ کپتان کی حکومت ڈانواں ڈول ہے یا اپوزیشن میں اتنا دم خم ہے کہ وہ حکومت کو آج یا کل گرا سکے۔ اس خام خیالی کو بھی دور کرلیں کہ آپ کے دن حکومتوں کے آنے جانے سے پھرنے والے ہیں۔ سیاست دانوں کی سوچ، کپتان کا طرز حکمرانی ، حکومت اپوزیشن کی یہ جنگ آپ کے لئے نہیں بلکہ ان دو کرداروں کے سیاسی مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ ہم کل بھی دیہاڑی دار تھے آج بھی ہیں اور کل بھی اسی طرح رہیں گے۔ ہمیں ان حکومتوں نے کچھ دینا ہے نہ ہی اپوزیشن نے۔ گھر کا چولہا جلانے کے لئے اپنے جسم کی چربی ہی پگھلانا پڑے گی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران ’’معزز‘‘ اراکین نے مولا جٹ کی جو فلم چلائی یہ اسی تبدیلی کے ثمرات ہیں جو ہمیں کنٹینر سے اقتدار تک لے آئی۔ اب ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ اس ملک میں کسی نے بھی کوئی جائز ناجائز بات منوانی ہے تو وہ چار بینر اٹھائے کسی بھی چوراہے پر کھڑا ہو کر بےہودہ نعرے لگائے اور سوچ یہ رکھے کہ مطالبات منوانے، تبدیلی لانے کا یہی بہترین طریقہ ہے تو پھر دیکھ لیجئے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ کس طرح رنگ پکڑتا ہے کہ قومی اسمبلی میں ہونے والے فساد کے اثرات نے بلوچستان اسمبلی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دراصل یہ جوتے کسی ایک شخص پر نہیں بلکہ اس نظام پر اُچھالے گئے ہیں جس کی بنیاد پر ان اراکین کو انتخاب کے نام پر ہم پر مسلط کیا گیا اور تبدیلی کے نام پر اس ملک سے ایک ایک کرکے سیاسی جماعتوں، کارکنوں کے کردار کو مسخ کر دیا گیا اور معاشرے میں ہائبرڈ نظام، سلیکٹرز کی اصطلاح رواج پانے لگی اور یہ زبان زدِ عام ہواکہ سلیکٹرز جب چاہیں ، جس طرح چاہیں،جسے چاہیں اس نظام کا حصہ بنا سکتے ہیںچنانچہ اِس نظام سے عملاً بیزاری ، سیاسی جماعتوں کی عمل داری ختم کرکے گھما پھرا کر چند سلیکٹڈ لوگوں کے سپرد کرنا اور یہ توقع رکھنا کہ کوئی بہت بڑا معاشی، سماجی یاسیاسی انقلاب برپا ہو جائے گا خام خیال نہیں تو کیا ہے؟ خانِ اعظم کی 23 سالہ سیاسی جدوجہد ، ذاتی دیانت پریہ بحث مقصود نہیں کہ انہیں کس طرح اقتدار کی سیڑھی چڑھایا گیا اور اب انہیں نیچے اتارنا مشکل کیوں ہے؟ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر انہیں اس نظام کی سختی سے گزار کر قدرتی عمل کے ذریعے لایا جاتا یا ان میں ایسی خداداد صلاحیت ہوتی کہ وہ یہ نظامِ حکومت احسن طور پر چلا سکتے تو یقیناً خانِ اعظم اپنے نظریے کی بنیاد پر فعال کردار ادا کرسکتے تھے۔ اس نظام کی تباہی و بربادی کی واحد وجہ یہی ہے کہ ہر جمہوری دور حکومت میں کچھ ایسے کرداروں کومخصوص مفادات کے تحت اقتدار کا حصہ بنانے کی خاطر سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ کے ایک ایسے عمل کو فروغ دیا گیا جس کا نقصان آج پورا سیاسی نظام بھگت رہا ہے۔ خانِ اعظم کی 2018 کے انتخابات میں عوامی مقبولیت اس حد تک تو ضرور تھی کہ اگر وہ اپنے حقیقی کارکنوں، مخلص رہنماؤں کو پارٹی ٹکٹ دیتے تو کامیابی کا تناسب شاید اس سے بھی بہتر ہوتا اور ان کی حکومت زیادہ مضبوط ہوتی لیکن جس طریقے سے سیاسی سرمایہ کاروں کو تحریک انصاف کا حصہ بنایا گیا اور آج کاروباری لوگوں کا ”سیاسی کارٹل“ خانِ اعظم کے سامنے اژدھا بنا کھڑا ہے۔ اسے بدقسمتی ہی سمجھئے کہ کپتان نے اب بھی سبق نہیں سیکھا۔ انہوں نے حکومت پر توجہ دی نہ تحریک انصاف کی تنظیم سازی اور بہتری پر۔ جس کا نتیجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں سب نے دیکھا کہ جو لوگ پانچ سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے ایک اشارے پر راتوں رات اپنی وفاداریاں بدل کر تحریک انصاف کا حصہ بن کر دوبارہ اقتدارمیں آگئے۔ اب ایک بار پھر یہی عمل آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی دہرایا جارہاہے۔ سوال بڑا معصومانہ ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ اگر یہی لوٹے ہمارے نصیب میں لکھے ہیں اور انہیں مانجھ کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرنا ہی اصل سیاست ہے تو پھر یہ لوٹا جس حمام میں پڑا ہے وہیں استعمال کریں کیوں انتخابات کے نام پر اربوں روپے برباد کئے جارہے ہیں۔ یہ چُوری کھانے والے مجنوں، طوطا چشم میاں مٹھو تو صرف چُوری کھانے آتے ہیں کسی بھی وقت پُھر سے اُڑ جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)