بحران کا حل:کشیدگی میں نہیں، مذاکرات میں ہے!

May 06, 2016

پاناما لیکس کے حوالے سے عدالتی انکوائری کمیشن کے دائرہ کار اور شرائط کار کا معاملہ اس وقت سیاسی افق پر اس طرح چھایا نظر آرہا ہے کہ بہت سے دیگر معاملات سے توجہ ہٹ جانے کے خدشات ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت سمیت کئی ممالک میں پاناما انکشافات سامنے آنے کے بعد تشکیل دیئے گئے کمیشنوں نے کام بھی شروع کردیا ہے مگر وطن عزیز میں یہ معاملہ تاحال الجھا نظر آرہا ہے۔ قبل ازیں حکومت کی طرف سے مجوزہ کمیشن کے لئے جو ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) رکھے گئے تھے وہ اگرچہ جامع تھے اور قرضے لیکر معاف کرانے سمیت کرپشن کے وسیع پہلوئوں کا احاطہ کرتے تھے مگر انہیں اپوزیشن جماعتوں نے پیر کے روز مسترد کرتے ہوئے منگل کے روز 15نکات پر مشتمل اپنے مجوزہ ٹی او آر کا اعلان کیا تھا۔ یہ ٹی او آر اگرچہ جمعرات کے روز قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اپنے خط کے ساتھ حکومت کو بھیجے ہیں مگر بدھ کے روز وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطح کے مشاورتی اجلاس میں اخبارات کے ذر یعہ سامنے آنے والے نکات کا جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس کے بعدظاہر کئے گئے حکومتی ردعمل سے واضح ہے کہ اپوزیشن کے ٹی او آر حکومت کے لئے قابل قبول نہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا وزیر قانون زاہد حامد اور وزیراعظم کے مشیر قانون بیرسٹر ظفر اللہ خاں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپوزیشن سنجیدہ انکوائری سے گریز کررہی ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاناما لیکس پر تماشا جاری رہے، وہ انا پرستی اور ضد پر اترے ہوئے ہیں، ایسے لوگوں کی خواہش ہے کہ معاملہ الزامات پر چلتا رہے منطقی انجام تک نہ پہنچے۔ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن کی ٹی او آر پر تحفظات کے باوجود حکومت اس معاملے پر حزب اختلاف سے بات کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس پریس کانفرنس سے قبل منعقدہ خصوصی اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف بھی یہ کہہ چکے ہیںکہ اپوزیشن سے مشاورت کے دروازے بند نہیں کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ احتساب سے نہ پہلے کبھی ڈرے ہیں نہ آئندہ ڈ ریں گے۔ میاں نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے روز اول ہی خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا تھا مگر اپوزیشن قرضے معاف کرانے والوں کو بچا رہی ہے، اس کی ٹی او آر میں صرف وزیراعظم کو ہدف بنایا گیا ہے اور اس سازش کا مقصد ملک کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے اپنے ٹی او آر کو حتمی قرار دینے پر اصرار نہیں کیا اور اپوزیشن سے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ حزب اختلاف کے لیڈروں کے بیانات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان ٹی او آر کے مسئلے پر بات چیت کا آپشن موجود ہے۔ دراصل مکالمہ ہی وہ موثر طریقہ ہے جس سے نقطہ ہائے نظر کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے۔ سیاست کی ایک تعریف یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ بظاہر ناممکن نظر آنے والے معاملات میں سے ممکنات کو بروئے کار لانے کا فن ہے۔بحرانوں اور چیلنجوں کا سامنا دنیا کے ہر ملک کو کرنا پڑتا ہے اور بار بار کرنا پڑتا ہے مگر سیاستدان اور قائدین بالغ نظری سے فیصلے کرکے ملک و قوم کو مشکلات سے نکالتے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی سات دہائیوں کے دوران کئی اہم فیصلے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکالمے کے نتیجے میں سامنے آئے ہیںمگر کئی مواقع پر معاملات کشیدگی کی اس سطح پر جا پہنچے جہاں ارباب سیاست کی گرفت برقرار نہ رہ سکی۔ اس وقت ملک کو ایک تجربہ کار وزیراعظم کی قیادت حاصل ہے جو تیسری بار اس منصب پر فائز ہوا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن میں بھی ایسے میچور افراد موجود ہیں جو خاصے نشیب و فراز سے گزر کر موجودہ مقام تک پہنچے ہیں انہیں باہمی مذاکرات کا ڈول ڈالنے میں تاخیر سے کام نہیں لینا چاہئے۔ دونوں فریقوں کو ملک اور قوم کے بہتر مفاد میں مل جل کر ایسے ٹی او آر تیار کرنے چاہئیں جن سے کشیدگی کے امکانات ختم ہوں ، جو ڈیشل کمیشن کے ذریعے سچ کو سامنے آنے کا موقع ملے اور شفاف احتساب کی روایت کو مستحکم بنیادیں فراہم کی جاسکیں۔