سلطان اور بیجان سکے

July 05, 2013

بیشمار خوشیوں اور خوش بختیوں کے باوجود میٹرک تک میری زندگی اذیت کی انتہا تھی اور اس کی اکلوتی وجہ تھی میتھی میٹکس کا منحوس مضمون جس کی الف بے بھی میرے پلے نہیں پڑتی تھی، لیکن آج تک سمجھ نہیں آئی کہ میں پاس کیسے ہوتا رہا، رو پیٹ کر 40 فیصد کے لگ بھگ مارکس لے مرتا جبکہ دوسرے مضامین میں ٹھیک ٹھاک تھا۔ بالخصوص ”ہسٹری“ میں تو اپنا ثانی ہی کوئی نہ تھا، تاریخ کے استاد کہا کرتے کہ سمجھ نہیں آتی اس کے مارکس کہاں سے اور کیسے کاٹیں۔ مختصراً یہ کہ تاریخ مجھے تب بھی بہت فیسی فیٹ کرتی تھی اور آج بھی میرا محبوب و مرغوب ترین مضمون و موضوع ہے ورنہ میں اس ننھی منی خبر پر کالم نہ لکھتا، خبر ملاحظہ فرمائیں:
”سلاطین دہلی میں ایک فرمانروا سلطان شمس الدین التمش کے سب سے چھوٹے بیٹے ناصر الدین محمود کے دور حکومت کے 800 سالہ پرانے سکے مٹی کی کھدائی کے دوران لالہ موسیٰ کے نواحی گاؤں سے برآمد ہوئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں برآمد ہونے والے تانبے کے یہ سکے چمک دمک اور خوبصورتی کے لحاظ سے منفرد دکھائی دے رہے ہیں، سکوں پر سلطان ناصر الدین محمود کا نام کنندہ ہے جس نے طویل عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کی“۔
میں نے التمش کے مزار پر تو حاضر دی ہوئی ہے جس نے قطب مینار مکمل کیا اور آج اسی کے پہلو میں آسودہ خاک ہے۔ اس شام قطب مینار پر سیاحوں کا ہجوم تھا لیکن میرے سوا التمش کی قبر پر کوئی نہ تھا، میں خاصی دیر تک اس کے مزار پر محو دعا رہا۔ التمش ہی دراصل برصغیر میں اسلامی حکومت کا اصل بانی ہے، جیسے مغلیہ سلطنت کا اصل بانی بابر نہیں اکبر کو سمجھا جاتا ہے۔ سلطان التمش بہت کشادہ دل، دلیر اور جری ہی نہیں، بہترین منتظم بھی تھا، اسی نے ترک غلاموں کی وہ جماعت متعارف کرائی تھی جسے ”غلامان چہلگان“ کا عنوان دیا گیا، سلطان التمش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انگریز مورخ لکھتا ہے:
"Once inside the campaign, He always refused to come
out unsuccessful."
1235ء میں سلطان نے سرکش گکھڑوں کی سرکوبی شروع کی تو اچانک بیمار پڑ گیا۔ اسے پالکی میں ڈال کر دہلی لایا گیا، بستر مرگ پر اس نے اپنی شہرہ آفاق بیٹی و شہزادی رضیہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ امراء نے مودبانہ اعتراض کیا کہ ”عورت ہے“ تو سلطان نے کہا: ”تم اس کو اس کے بھائیوں کے مقابلہ پر بہتر حکمران پاؤ گے“۔ سلطان 30 اپریل 1236ء کو انتقال کر گیا اور قطب مینار مسجد قوت الاسلام کے ایک کونے میں دفن کیا گیا… وہی جگہ جہاں میں دیر تک اداس سلطان کیلئے دعائے مغفرت کرتا رہا۔
التمش کا انتہائی قابل، شجاع اور اعلیٰ تربیت یافتہ بیٹا ناصرالدین محمود دراصل اس کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا، باقی بیٹے عیاش و آرام طلب تھے، ناصر الدین محمود کی وفات کے بعد جب اس کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو سلطان نے بیٹے کی یاد میں پوتے کا نام بھی ناصر الدین محمود رکھ دیا جس نے بعد ازاں 10 جون 1246ء تا 18 فروری 1266ء بیس سال ہندوستان پر حکمران کی اور یہی وہ متقی، پرہیزگار، زاہد و عابد، سخی و عادل اور بردبار ناصر الدین محمود تھا جس کے عہد کے سکے لالہ موسیٰ کے نواحی گاؤں سے برآمد ہوئے ہیں، سلطان کی خبر نہیں سکے موجود ہیں۔
التمش اور اس کے پوتے سلطان ناصر الدین محمود کے درمیان کا عہد عدم ا ستحکام کا شکار رہا، ہوا یہ کہ ”عورت کی حکمرانی“ کے احساس کمتری میں مبتلا امراء نے التمش کے بڑے بیٹے اور رضیہ سلطان کے سوتیلے بھائی رکن الدین فیروز کو تخت پر بٹھا دیا جو اس وقت بدایوں کا گورنر تھا، فیروز عیاش اور نااہل تھا، اس کے تمام تر اختیارات پر اس کی ماں شاہ ترکان کا قبضہ تھا جو بے حد ظالم اور حریص عورت تھی۔ وہ اتنی سفاک تھی کہ اس نے رضیہ کے سگے بھائی قطب الدین کو قتل کروانے کے بعد رضیہ کے قتل کا بھی فیصلہ کر لیا۔ 6 ماہ 29 دن کے بعد امراء نے فیروز سے نجات حاصل کر کے رضیہ سلطان کو تخت پر بٹھا دیا۔ رضیہ سلطان نے 1236ء تا 1240ء خوش اسلوبی سے حکومت کی اور اپنے باپ کی رائے کو درست ثابت کیا لیکن مسلسل سازشوں کا شکار رہی، سبھی قرامط کی شور، کبھی بدایوں، ملتان، لاہور اور ہانسی (میرے پرکھوں کا علاقہ) کے گورنروں کی سازشیں کیونکہ دہلی کے امراء نے ان سے مشورہ کے بغیر رضیہ کو تخت پر بٹھایا تھا، کبھی امراء نے چہلگانی کی سرکشی… اور ان سب سے بڑھ کر رضیہ کا عورت ہونا، ترک پردہ اور نسوانی کی جگہ مردانہ لباس کا استعمال کردار کشی کی مہم شروع ہو گئی اور سازشیوں نے ملک یاقوت پر رضیہ کی عنایات کو غلط رنگ میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ غلاموں کو ”حبشی غلام“ قبول نہ تھا اور وہ اسے امیر الامرائی جیسے متعصب کے قابل نہ سمجھے تھے۔ ادھر 1239ء میں گورنر لاہور ملک عزالدین نے بغاوت کر دی، اس سے فارغ ہوئی تو ملک التونیہ حاکم بٹھنڈا کی بغاوت، ادھر وہ قید ہوئی ادھر اس کے بھائی بہرام شاہ نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ التونیہ اور رضیہ کی شادی پر بہرام نے دونوں کو شکست دے دی، میدان جنگ سے بھاگے تو زرو جواہر کے لالچ میں ہندوؤں نے انہیں قتل کر دیا۔ بہرام خونخوار تھا، اس کے نائب نے اس کی بیوہ بہن سے شادی کر کے پاؤں پسارنے شروع کئے تو سلطان نے اسے بھی قتل کرا دیا۔ اسی دوران منگولوں نے لاہور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 10 مئی 1242ء کو بہرام شاہ قتل ہوا تو فیروز کا بیٹا علاؤ الدین مسعود تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ اس نے چہگلانی امراء کا زور توڑنے کی کوشش کی تو انہوں نے غضبناک ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تب وہ درویش صفت سلطان ناصر الدین محمود منظر شاہی پر ابھرا جس کے عہد کے سکوں نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا تاکہ ہم ایک بار پھر یہ سوچ سکیں کہ سلطان چلے جاتے ہیں… صرف داستان اور سکے باقی رہ جاتے ہیں یا کچھ اچھی باتیں، مثلاً سلطان ناصر الدین محمود ذاتی گزر بسر کیلئے قومی خزانہ سے کچھ لینے کی بجائے قرآن پاک کی کتابت سے روزی کماتا تھا۔ ایک بار ہدیہ کچھ زیادہ ملا تو سلطان نے اگلا نسخہ خفیہ طور پر بازار بھیجا کہ اسے اتنا ہی ہدیہ ملے جتنا باقیوں کو ملتا تھا۔ نام نہاد جمہوریت میں بادشاہتاور بادشاہت میں کہیں کہیں جمہوریت بھی تاریخ کا حسن ہے۔ملکہ بلین کی بیٹی تھی اور روٹی پکاتے وقت اکثر اس کے ہاتھ جل جایا کرتے تھے، جس پر ناصر الدین محمود روتے ہوئے اپنی شریک حیات سے کہتا… ”صبر کر اللہ اس کا اجرا دے گا“ ۔