افغانستان کا گرین کارڈ

June 30, 2021

خدا کو جان دینی ہے، سچ بات کہنے سے گھبرانا نہیں چاہئے اور غلطی کا اعتراف کرنے میں شرمانا نہیں چاہئے۔ گزشتہ برس تک میرا بھی یہی خیال تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں مطلوبہ مقاصد حاصل کر لئے ہیں اور یوں اُس کی افواج فتح کا نقارہ بجاتی ہوئی افغانستا ن سے نکل رہی ہیں ۔لیکن پچھلے ہفتے میں نے روزنامہ کالک میں ایک اداریہ پڑھا جس کے بعد مجھے اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ یہ بڑے آدمی کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ حقائق کی روشنی میں اپنا نظریہ تبدیل کرتاہے، مجھ میں ایسی کئی نشانیاں ہیں مگر خدا کا شکر ہے کہ میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔اداریے کا لب لباب یہ تھا کہ بیس برس تک افغانستان میں جھک مارنے کے بعد بالآخر امریکیوں کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ طالبان سے لڑنا اُن کے بس کی بات نہیں سو اب امریکی فوجی افغانستان سے دُم دبا کر بھاگ رہے ہیں ۔اخبار نے مزید لکھا کہ طالبان بھاگتے ہوئے امریکیوں کی دُم پر پاؤں رکھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے امریکیوں کو بھاگنے میں بے حد تکلیف اور دشواری ہو تی ہے،طالبان کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں،ویسے بھاگتے ہوئے فوجیوں کی دُم پر پاؤں رکھنا جنیوا معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے ۔اخبار نے یہ بھی لکھا کہ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے والی ہے اور یہ ایک تاریخی لمحہ ہے ،پاکستان میں صاحبانِ نظر اِس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے ابھی سے اسلام آباد میں واقع افغان سفارت خانے میں امیگریشن کی درخواست جمع کروا دی ہے، قارئین میں سے بھی اگر کوئی افغانستان کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ فوری طور پر نیچے دیے ہوئے نمبر پر بذریعہ ایزی لوڈ ہمیں 3,530روپے بھیجے، رقم ملتے ہی محض سات دن کے اندر اندر آپ کا گرین کارڈ گھر پر ارسال کر دیا جائے گا۔یاد رہے کہ ہماری اور کوئی برانچ نہیں ،مزید براں ایزی لوڈ کرواتے وقت دکاندا ر آپ کو بتائے گا کہ یہ نمبر کرن شہزادی کے نام ہے، تاہم قارئین اِس نمبر پر فون کرنے کی زحمت نہ کریں کیونکہ اصل میں یہ نمبر حاجی ظاہر خان کا ہے جو قندھار میں بڑے گوشت کا کام کرتے ہیں اور ہمارے نمائندہ خصوصی ہیں۔

یہ اداریہ پڑھنے کے بعد میں نے اُن صاحبانِ نظر کو فون گھمایا جن کا ذکر اِس اداریے میں کیا گیا تھا، اُن تمام لوگوں سے نہ صرف افغانی امیگریشن کے لئے درخواست جمع کروانے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ بہت جلد اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کابل منتقل ہونے والے ہیں ۔سچی بات ہے مجھے اپنی لا علمی اورکج فہمی پر سخت غصہ آیا۔ جو بات نائن الیون کے بعد ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا تھا کہ افغان باقی کہسار باقی، اُس بات کو سمجھنے میں مجھے بیس برس لگے۔اتفاق سے اگلے روز انجمن صاحبان ِ دور اندیش کا ہفتہ وار اجلاس تھا، میں بھی وہاں پہنچ گیا۔وہاں میری ملاقات ایسے بہت سے لوگوں سے ہوئی جو افغان شہریت حاصل کر چکے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ بے شک یہ سچ ہے کہ امریکی فوج افغانستا ن سے واپس جا رہی ہے مگر اس کے باوجود ابھی افغانستان پر طالبان کا اقتدار قائم نہیں ہوا، ہنوز کابل دور است، سو آپ لوگ ابھی سے کیو ں اپنا سب کچھ بیچ کر افغانستان شفٹ ہو رہے ہیں؟ میری بات سُن کر پہلے تو وہ تمام درویش خوب ہنسے پھر اُن میں سے ایک درویش ،جس نے شلوار قمیض کے نیچے جوگر پہن رکھے تھے، یکایک رونے لگا۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولے کہ اے نادان شخص، دراصل تو اب بھی مغربی میڈیا سے مرعوب ہے، تجھے یہ علم ہی نہیں کہ طالبان کا کابل میں جھنڈا لہرانا اب صرف چند ماہ کی بات ہے،اس کے بعد وہاں ایک مثالی اسلامی حکومت قائم ہوگی، اُس حکومت میں طالبان اسی طرح انصاف کریں گے جیسے انہوں نے پہلے دور اقتدار میں کیا تھا، یہ ہماری غلطی تھی کہ اُس وقت ہم افغانستان منتقل نہیں ہوئے تھے لیکن اب امریکی فوج کی ذلت آمیز شکست کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم افغانستان کا گرین کارڈ حاصل نہ کریں، طالبان خدا کے پراسرار بندے ہیں جو افغانستان کو ایک اسلامی سپر پاور بنا کر دم لیں گے ،شاید اِس کام میں آٹھ دس ماہ لگ جائیں لیکن اتنا وقت تو ہمیں بھی یہاں سے ’وائنڈ اپ ‘ کرنے میں لگ جائے گا، میں نے تو اپنا گھر بکنے کے لئےلگا دیا ہے ،باقی تھوڑی بہت جمع پونجی بینک میں ہے، البتہ گاڑی ابھی میرے استعمال میں ہے، چاہو تو تم خرید لو، صرف تیس ہزار کلومیٹر چلی ہے، ایک لیٹر میں پندرہ کلومیٹر طےکرتی ہے، نئے ٹائر ہیں، صرف اگلا بمپر ٹچ ہے، باقی ٹوٹل جینوئن ہے، پچیس ڈیمانڈ ہے، تم چوبیس دے دینا۔اِس سے پہلے کہ یہ تمام گفتگو سننے کے بعد میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑتے، دوسرا درویش کہنے لگا کہ میاں کیا اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لو گے، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ لوگ افغانستان کی امیگریشن کے لئے اسی طرح دیوانہ وار کوشش کر رہے ہیں جیسے تم لوگ امریکہ کینیڈا کی امیگریشن کے لئے کرتے ہو،وقت بدل رہا ہے میاں صاحبزادے، میری مانو تو اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے، جس روز کابل میں طالبان نے حکومت بنا لی اُس روز یہی گرین کارڈ تمہیں کروڑ روپے میں بھی نہیں ملے گا، میں نے تو جلال آباد میں بات بھی کر لی ہے، وہاں طالبان ٹوڈے کے مدیر کی نوکری میرا انتظار کر رہی ہے، اگر چاہو تو میں تمہارے لئے بھی بات کر سکتا ہوں، روزنامہ قندھار میں تمہارا کالم شروع ہو سکتا ہے، ویسے تورا بورا کرانیکل میں بھی اسامیاں خالی ہیں، بولو کیا خیال ہے ؟ اِس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، ایک درویش نے گنگنانا شروع کر دیا ’تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی‘ اور باقی تمام درویش اُس دھن پر تھرکنے لگے۔

ﷲ کو جان دینی ہے، اِس سے پہلے مجھے کبھی اپنی کوتاہ نظری کا اِس قدر احساس نہیں ہوا تھا جتنا اُس روز اُن اہل نظر حضرات سے ملاقات کے بعد ہوا۔ میرے جیسا دنیا دار بندہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ افغانستان کے گرین کارڈ کے لئے درخواست جمع کروا دینی چاہئے۔ یہ کالم ختم کرنے کے بعد میں دو کام کروں گا، ایک تو حاجی ظاہر خان کو ایزی لوڈ کرواؤں گا اور دوسرا تورا بورا کرانیکل میں مدیر کی نوکری کے لئے درخواست دوں گا۔ اہل نظر نے بتایا تھا کہ اُس کے مشاہرے میں دیگر مراعات کے علاوہ دو کنیزیں بھی شامل ہیں ۔’تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی۔‘