یہ ہے اشرف المخلوقات

July 04, 2021

اس دنیا کو دیکھنے کے دو انداز ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ بظاہر نظر آرہا ہے، اسی تک انسان محدود رہے۔ دوسرا یہ کہ انسان سوچے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ایک سیب شاخ سے ٹوٹ کر نیچے گرا۔ لاکھوں برس سے لوگ چیزوں کو زمین پہ گرتا دیکھ رہے تھے۔ عام لوگوں کے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ نیوٹن بھی اگر عام لوگوں کی طرح غائب دماغی کے عالم میں نیچے گرنے والی چیزوں کو دیکھتا رہتا تو کششِ ثقل تک نہ پہنچتا۔ اس کے غور و فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کے پاس پورے نظامِ شمسی کی وضاحت آگئی۔ چاند کیوں زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ زمین کیوں سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ کہکشاں کیوں حرکت کر رہی ہے۔ آپ ان پڑھ لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھائیں کہ ہاتھ سے گرنے والی ہر چیز زمین پہ کیوں جا گرتی ہے؟ وہ آپ کو مشورہ دیں گے کہ دماغ کے کسی ڈاکٹر کو دکھائیں؛ حالانکہ آپ کا سوال بالکل درست ہے۔اسی طرح دنیا کا ہر مظہر انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اب آپ اپنی غذا پہ غور کریں۔ پورا دن کام کرتے ہیں تو آپ کو روپیہ ملتا ہے۔ آپ کھانا خریدتے اور کھا لیتے ہیں۔ آپ نے اپنے زورِ بازو سے یہ کما کر کھایا۔ یہ ہے سوچنے کا عام انداز۔ اس وقت کیا ہوتا ہے، جب دنیا کی ہر نعمت آپ کے سامنے پڑی ہوتی ہے لیکن آپ اسے نگل نہیں سکتے۔ ڈاکٹر منع کر دیتا ہے۔ بےشمار امیر لوگ اپنے بچوں کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ تھوڑا سا کھا لو۔ بچے نے لیکن منہ سختی سے بند کیا ہوتا ہے کہ نہیں، اس طرح بات سمجھ نہیں آئے گی۔انسان تو اپنی محنت اور عقل سے کما کر خوراک خرید کر کھاتا ہے۔ دنیا میں آج انسان کے علاوہ 87لاکھ قسم کی دیگر مخلوقات پائی جاتی ہیں۔ گلی میں پھرنے والے کتے اور دیوار پہ لٹکے ہوئے مکڑے تک کو اس کی خوراک مل رہی ہے۔ گٹر کے کیڑوں کو بھی ان کی خوراک مل رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح بھی بات سمجھ نہیں آئے گی۔

فرض کریں کہ زمین پودے اگانا بند کر دے تو آپ کا مال آپ کے کسی کام نہ آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خواہ کتنے بڑے انجینئر، ڈاکٹر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور فلمساز کیوں نہ ہوں، آپ زمین سے اگنے والی خوراک کے محتاج ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کسی کے حکم پر ہر قسم کی خوراک اگا رہی ہے۔ اس خوراک کے کچھ دانوں پر آپ کا نام بھی لکھا ہے؛ چنانچہ وہ آپ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر آپ کا نام کسی چیز پر نہ لکھا ہو تو وہ آپ کے سامنے پڑی رہے گی مگر آپ اسے کھانے سے قاصر ہوں گے۔ باقی یہ جو نظر آتا ہے کہ میں بڑی محنت اور عقل سے کما کے کھا رہا ہوں، یہ ایک دھوکہ ہے۔ حدیث کے مطابق انسان اگر اس طرح توکل کرے، جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو اسے اس طرح رزق دیا جائے گا، جیسا کہ پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے اور شام کو بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ 4164۔ اگر اللہ علم اور عقل دے تو ایک اسٹیج پر آ کر شدید بھوک کے باوجود انسان یہ جان لیتا ہے کہ سامنے پڑی خوراک اس کی نہیں بلکہ اس کی خوراک تو ابھی آنی ہے۔

چند روز قبل ایک فارم کا دورہ کیا۔ یہ جان کر بےحد خوشی ہوئی کہ عام کاشتکار جہاں ایک پودے سے دو تین سو مالٹے حاصل کرتے ہیں، وہ سائنسی مہارت کی وجہ سے ایک ہزار پا لیتے ہیں۔ چلتے چلتے اچانک شیر خوار بچھڑوں کی آوازیں سنائی دیں۔ حیرت ہوئی کہ اس عمر میں تو انہیں اپنی مائوں کے قریب ہونا چاہئے۔ یہاں پہنچ کر فارم کے منیجر نے ایک خوفناک انکشاف کیا۔ اس نے کہا: بچھڑا جب پیدا ہوتا ہے اور ایک گھنٹے میں اس کی ماں جب اسے چاٹ کر صاف کر دیتی ہے تو ہم اسے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ صدمے کی شدت سے میں گنگ ہو کر رہ گیا۔ ’’تو پھر وہ زندہ کیسے رہتے ہیں؟‘‘ ’’انہیں فیڈر سے دودھ پلایا جاتا ہے‘‘۔ ’’اور ماں پہ کیا گزرتی ہے؟‘‘ ’’کچھ نہیں، وہ چند دن میں اپنے بچھڑے کو بھول جاتی ہے‘‘۔ اس نے بےحسی سے کہا۔

یہ میری زندگی کے ان لمحات میں سے ایک تھا، جب مجھے اپنے انسان ہونے پر شرم آئی۔ دس بارہ ماہ حمل اٹھائے رکھنے کے بعد، جب وہ اپنے بچھڑے کو جنم دیتی ہے، جب وہ اسے چاٹ چاٹ کر صاف کرتی ہے، جب وہ اسے اچھی طرح سونگھ کر اس کی محبت اپنے دل میں اتار چکتی ہے۔ جب اس کا دودھ اتر آتا ہے تو ہم اسے اٹھا لے جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ وہ جانور، جو اپنا دودھ بھی انسان کو دے رہا ہے اور گوبر بھی، ہم اسے یہ اجازت نہیں دیتے کہ چند بوندیں وہ اپنے بچے کو پلا سکے، اسے چوم سکے، اپنے دل سے لگا کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر سکے۔ چند گھونٹ دودھ پہ للچاتا ہوا انسان۔ یہ ہے اشرف المخلوقات، سوٹڈ بوٹڈ، انگریزی بولتا ہوا مگر پتھر دل آدمی۔ ایک ہزار بار لعنت ایسے رزق پر جس کے لئے کسی ماں سے اس کا شیر خوار بچہ چھیننا پڑے۔ رزق کی تلاش میں آدمی کتنا بےرحم ہو گیا۔ ویسے اگر آپ سے بھی آپ کی اولاد چھین لی جائے تو صبر تو بالآخر آپ کو بھی آہی جائے گا۔ پھر کیا خیال ہے؟