میٹرک اور انٹر کے طلبا کے ساتھ ناانصافی

July 04, 2021

گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے جہاں نظامِ زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے وہیں دنیا بھر اور خصوصاً پاکستان میں میٹرک اور انٹر کے طلبا کے ساتھ پہلے کورونا اور پھر حکومت نے عجب کھیل کھیلا ہے۔ کورونا کے پہلے سال یعنی گزشتہ برس تو حکومت نے نویں اور دسویں جماعت کے طلبا کو ماضی کے نمبروں کی بنیاد پر اگلی جماعتوں میں پروموٹ کردیا تھا یہی کچھ فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کے طلبا کے ساتھ بھی کیا گیا لیکن اس سال حکومت نے میٹرک اور انٹر کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس سال پچھلے سال سے زیادہ کورونا کی وبا نے لوگوں کو ڈرا کے رکھا جبکہ حکومت نے بھی بھرپور لاک ڈائون کے ذریعے اسکول اور کالج بند رکھے، آن لائن کلاسز بھی چند فیصد خوش قسمت طلبا لے سکے ورنہ اکثریتی اسکول اور کالج اس سہولت سے ہی محروم ہیں۔ اگلے روز سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم جس کی صدارت سینیٹر عرفان صدیقی کررہے تھے جبکہ کمیٹی کے رکن سینیٹر کیپٹن (ر) شاہین خالد بٹ نے بھی اس اہم مسئلے پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے جواب طلبی کی ہے، کیپٹن شاہین خالد بٹ کے مطابق وفاقی وزارتِ تعلیم کے غلط فیصلے سے ہزاروں طالب علم بےیقینی کی کیفیت کا شکار ہیں جبکہ بہت بڑی تعداد میں طالب علم اور ان کے والدین میٹرک اور انٹر کے ہونے والے ان غیرضروری اور غیرمنظم امتحانات کے سبب ڈپریشن کے مریض بن چکے ہیں، سینیٹر صاحب کے مطابق حکومت نے میٹرک اور انٹر میں جن اختیاری مضامین کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ہے، کیا حکومت نے یہ یقینی بنایا تھا کہ ان مضامین کی تعلیم بھی طالب علموں کو فراہم کی جائے؟ حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار موجود ہیں کہ ان دو برسوں کے مشکل ترین مضامین کی سال میں کتنے دن تعلیم فراہم کی گئی؟ کیا حکومت نے آن لائن کلاسز کے لئے ایسے انتظامات کیے تھے کہ اساتذہ آن لائن تعلیم دے سکیں اور طالب علم یہ تعلیم حاصل کر سکیں؟ کیا دنیا میں ایسا کوئی طریقہ موجود ہے کہ سال بھر بچوں کو گھر میں بٹھا کر بغیر پڑھائے ان سے میٹرک اور انٹر کے فزکس، کیمسٹری اور حساب کے پرچے لئے جا سکیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ نارمل روٹین میں میٹرک و انٹر کے ان دو برسوں میں طالب علم اسکول اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ ٹیوشن بھی پڑھتے ہیں تاکہ امتحانات میں اچھے نمبر آسکیں لیکن یہاں ٹیوشن اور کوچنگ سینٹر تو دور کی بات ہے، اسکولوں کالجوں میں بھی بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ پھر کس طرح بچے بورڈ کے امتحانات دے سکیں گے اور کامیابی حاصل کریں گے؟ سینیٹر کیپٹن شاہین کے مطابق ہمارے پاس بچوں اور والدین کی جانب سے درخواستوں کے انبار لگے ہوئے ہیں کہ خدارا کسی طرح امتحانات کو منسوخ یا ملتوی کرایا جائے تاکہ بچے یکسوئی کے ساتھ امتحانات کی تیاری کرکے بورڈ کے امتحان دے سکیں۔ سینیٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ درخواستیں صرف ہمارے پاس نہیں بلکہ وفاقی وزیر تعلیم کے پاس بھی موجود ہیں لیکن جب وہاں ان کی شنوائی نہیں ہوئی تو یہ درخواستیں ہم تک پہنچیں، امتحانات میں اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ حکومت کو احساس دلا سکیں کہ وہ غلط فیصلہ کرکے طالب علموں کا نقصان کرنے جا رہی ہے، ان امتحانات سے جو طلبہ 90فیصد نمبر لینے کی قابلیت رکھتے ہیں، ان کا پاس ہونا بھی مشکل ہو جائے گا۔ میٹرک و انٹر کے امتحانات ملتوی کرانے کی کوشش کرنے والی ایک معروف سماجی شخصیت کو ایک خاتون نے بتایا ہے کہ ان کے دو بچے ایف ایس سی میں ہیں اور دونوں اس وقت کورونا وبا میں مبتلا ہے، وہ کس طرح امتحان دے سکیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس میٹرک، انٹر کے امتحانات کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے، حکومت کا مقصد صرف امتحان لے کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت فوری طور پر امتحانات تین ماہ کے لئے موخر کرے، بچوں کو امتحانات کی تیاری کے لئے وقت دے، اسکولوں اور کالجوں میں بھرپور کلاسوں کا اہتمام کرے، بچوں کو مشکل مضامین کی کلاسیں مکمل کرانے کے ساتھ ساتھ امتحان کی تیاری کے لئے وقت فراہم کرے جس کے بعد امتحان لیا جا سکتا ہے بصورت دیگر زبردستی کے امتحانات ہزاروں طالب علموں اور ان کے والدین کو ڈپریشن کے مرض میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اب بھی وقت ہے، حکومت حالات کے مطابق درست فیصلہ کرکے ہزاروں طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کو اِس مشکل سے نکالے۔