چینی کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال!

July 05, 2021

1921 ء میں قائم ہونے والی چین کی کمیونسٹ پارٹی ایک سو سال کی ہو گئی ہے ۔ پورے چین میں اس حوالے سے تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں ۔ دنیا میں اس سے بھی زیادہ قدیم سیاسی جماعتیں موجود ہیں مگر چین کی کمیونسٹ پارٹی نے تاریخ کے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کرکے اپنے آپ کو جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط کیا ہے ، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اگرچہ یہ سیاسی جماعت گزشتہ 72 سال سے یعنی 1949 ء سے چین کے اقتدار پر بلاشرکت غیرے حکمران ہے اور اس نے وہاں مخالف سیاسی قوتوں کو پنپنے نہیں دیا لیکن چین کی حیرت انگیز کامیابیوں سے دنیا کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کو تاریخ کے ایک انوکھے کامیاب تجربے سے تعبیر کر رہی ہے ۔ یہ اور بات کہ جمہوریت نہ ہونے کا سوال اب بھی وہاں موجود ہے ۔

چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ صرف چین میں رہتا ہے ۔ ایک ارب 42 کروڑ انسانوں کو چین سماجی تحفظ کے ساتھ خوش حال زندگی کے مواقع فراہم کر رہا ہے ۔ بہت بڑی آبادی کو غربت سے نکالنے کا ایسا کامیاب تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ آج چین نہ صرف عالمی طاقت بلکہ عالمی سیاست کا محور بن چکا ہے ، جو دنیا کو نیا عالمی ضابطہ دینے کے لیے کوشاں ہے ۔ اس کا کریڈٹ یقیناً چین کی کمیونسٹ پارٹی کو جاتا ہے ۔

ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز تنظیم نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو دنیا کا ایک مضبوط سیاسی ادارہ بنا دیا ہے ۔ ملک کے اندر اگرچہ ایک ہی سیاسی جماعت کی آمریت ہے لیکن پارٹی کے اندر اگر جمہوریت نہ ہوتی تو اس کی بقا ممکن نہیں تھی ۔ اس سیاسی جماعت کو چینی سماج اور ریاست کی قیادت کرنے والا ادارہ تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ ’’ جمہوری مرکزیت ‘‘ کے مارکسی نظریہ پر یقین رکھتی ہے ۔ پالیسی امور پر پارٹی کے کھلے مباحثے کا ایک نظام موجود ہے لیکن جب کوئی پالیسی طے ہو جائے تو اختلاف کے باوجود اس کی پابندی سب پر لازم ہے ۔ اس وقت چین کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت 9 کروڑ 20 لاکھ ہے ، جو آبادی کا تقریبا 6 فیصد ہے ۔

پارٹی کی 46 لاکھ 80ہزار نچلی سطح کی تنظیمیں ہیں۔ نچلی سطح سے ہی کارکنوں کی رائے لی جاتی ہے ۔ کارکنوں کی آرا کو مدنظر رکھتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر ریاست اور سماج کو آگے کس طرح چلانا ہے ، اس حوالے سے پالیسی مرتب کی جاتی ہے ۔ پالیسی پیپر کو پارٹی دستاویز کہا جاتا ہے ، جس کی منظوری ہر پانچ سال بعد پارٹی کی منعقد ہونے والی کانگریس میں دی جاتی ہے ۔ چین کے حالات کے مطابق چینی طرز کے سوشلسٹ نظام کو بدلتے ہوئے ماحول میں قابلِ اطلاق بنایا جاتا ہے ۔ یہ ایک کٹھن اور پیچیدہ جمہوری مشق ہے ۔

1985 ء تک دنیا کے ایک تہائی سے زیادہ ممالک میں کمیونسٹ یا سوشلسٹ سیاسی جماعتوں کا اقتدار تھا اور کمیونزم کو سرمایہ داری کا متبادل نظام تصور کیا جا رہا تھا ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ صرف چار ممالک یعنی چین ، لاؤس ، ویت نام اور کیوبا ہی اپنے آپ کو کمیونسٹ کہتے ہیں ۔ شمالی کوریا نے 2009ء میں اپنے دستور سے کمیونزم کے الفاظ نکال دیئے تھے اور مارکسزم لینن ازم کی بجائے ’’ خود انحصاری ‘‘ کے نظریے کے الفاظ استعمال کئے ۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اپنی اصل شکل میں نہیں رہی ۔

دنیا کے باقی ملکوں میں نہ صرف سوشلسٹ ، کمیونسٹ پارٹیز کا اقتدار ختم ہوا بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں ۔ دنیا کی کئی بڑی دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں یا تو ختم ہو گئیں یا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اس لئے آج تک موثر ہے کہ اس نے چین کے عوام کو ڈلیور کیا ہے ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بعد اگر کوئی مثال دی جا سکتی ہے تو وہ کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی ہے ۔

تاریخ میں کئی ایسے مراحل آئے ، جب چین کی کمیونسٹ پارٹی کے وجود کو زبردست خطرات لاحق ہوئے ۔ 1921 ء میں اپنے قیام کے تقریباً ایک عشرے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی اور نیشنلسٹ پارٹی ( کومنتانگ ) کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی ، جو 1949 ء تک جاری رہی ۔ کمیونسٹ پارٹی نے فتح حاصل کی اور عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی ۔ اس دوران 1934 ء سے 1936ء کے درمیان لانگ مارچ بھی ہوا ۔ اتنی بڑی خونریزی میںکسی بھی پارٹی کا وجود برقرار رہنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ’’ عظیم جست ‘‘ کے منصوبے نے بہت بڑے قحط کی صورت میں عظیم بحران پیدا کیا ۔ اس بحران سے بھی پارٹی نکلی ۔

1966 ءکا ثقافتی انقلاب پارٹی کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ تھا ۔ مائوزے تنگ نے پارٹی کی تطہیر کے لیے جو کام کیا ، اس نے بھی پارٹی کے لیے بقاکا مسئلہ پیدا کر دیا ۔ مائوزے تنگ کے بعد ڈینگ زیاؤ پنگ کا اصلاحات کا دور شروع ہوا ۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور سرد جنگ کے عہد کے خاتمے سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ پارٹی چین کی معیشت کو اوپن کر چکی تھی ۔ تمام چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے موجودہ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں پارٹی ایک نئے عہد میں داخل ہوئی اور آج چین امریکا اور اس کے حواری سامراجی ممالک کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔

یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے عوام اور اپنے کارکنوں کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھا ۔ سیاسی کارکنوں کی تربیت کی ، انہیں پارٹی کے پالیسی معاملات میں شریک رکھا ۔ بدلتے ہوئے حالات کا سائنسی تجزیہ کیا اور مسائل کو حل کرنے کے لئے چین کی اجتماعی دانش سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعض مراحل ایسے آئے ، جب سیاسی کارکنوں میں کرپشن اور دیگر خرابیاں پیدا ہوئیں لیکن پھر احتساب کا نظام بھی وضع ہوا ۔کرپشن کے خاتمے کے لئے جو کچھ چین نے کیا ، وہ شاید دنیا کا کوئی ملک نہ کر سکا ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے سیکھنا چاہئے کہ سیاسی جماعتیں کیا ہو تی ہیں اور کس طرح کام کرتی ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)