عظمت اور ہزیمت میں کیا فرق

July 08, 2021

کمال کردیا اسلام آباد پولیس نے… میرا چالان اور وہ بھی کمپیوٹرائزڈ طریقے پر! یعنی تصویری آگاہی کہ آپ نے یہ غلطی کی۔ مجھے یہ اطلاع لفافے میں ملی تو پولیس کی معقولیت پہلی دفعہ سامنے آئی، ساتھ ساتھ بھارت میں مفروضہ کشمیر کانفرنس میں نشاندہی کرنے کیلئے جو تصویر اور اعلان نامہ پڑھا تو یاد آیا۔ صراحی آئے گی، مے آئے گی پیمانہ آئے گا۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک…! کچھ کرلو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں، سامنے چین کی بلٹ ٹرین ہے جو انڈیا کے بارڈر تک جائے گی۔ سمجھنے والوں کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں کہ جون کے ختم ہونے کے ساتھ جولائی سے وابستہ بڑی افسوسناک کہانیاں ہیں۔ ایک تو ضیاء الحق کا سیاہ ترین دورجولائی میں شروع ہوا۔ جولائی ہی میں افغانستان سے امریکی فوجیں واپس جارہی ہیں جبکہ ہزاروں لیٹر شراب، جرمنی واپس بھیج دی گئی ہے اور طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!

ابھی تو مفتی عزیزالرحمٰن کبھی ہاں اور کبھی ناں کررہے ہیں۔ ابھی تو پشاور ہائیکورٹ نے جنسی ہراسانی کرنے والے شخص کو سزا دینے کی بجائے بری کردیا ہے۔ ابھی تو بلوچستان بجٹ پاس ہونے کی خبر خود وزیراعلیٰ کو بھی اسمبلی میں آکر ملی۔ ابھی تو ویمن کمیشن کے سربراہ کیلئے فوزیہ وقار کی باقاعدہ سلیکشن ہونے کے باوجود دو سال سے لٹکے معاملے کو لپیٹ دیا گیا کہ حکومتی امیدوار کو منتخب امیدوار سے کم ووٹ ملے۔ ابھی تو اسرائیل جانے والے کی خبر آئی ہے۔ معصوم پاکستانیو! جس کے پاس عالمی پروٹوکول والا پاسپورٹ ہو، وہ کہیں بھی جاسکتا ہے۔ ہمارے دوست خالد سہیل اور اشفاق حسین کے علاوہ دنیا بھر کے لوگ ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔ ہمیں کہا کہ جوبائیڈن نے پر نکالنے شروع کردیئے ہیں۔ عراقی اور شامی علاقوں پر حملہ کرنے کا جواز بھی نہیں دیا۔ جیسے ہمارے ترین صاحب کو اپنے پیش کردہ پرانے بجٹوں کا حوالہ تو کیا، اس لہجے کی جانب توجہ بھی نہ دی جیسے ہر ریلوے وزیر کے دور میں ٹرینوں کے حادثے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے 73؍سال میں ریلوے پھاٹک اپنی نامکمل شکل میں موجود ہیں۔ جیسے زراعت کے معصوم وزیر خود کہہ رہے ہیں کہ یہاں تو بہتر طریقے کا بیج حاصل کرنے کی جانب توجہ بالکل نہیں۔ زرعی پیداوار اور دالوں تک باہر کے ملکوں سے منگوانا زیب نہیں دیتا مگر یہ سچ ہے۔

کتنے سچ سامنے ہیں مگر اس پر بولنا، ہتڑ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ ہفتے نوجوانوں کی تیارکردہ دستاویزی فلموں میں مقابلے جیتنے والوں کو وزیراعظم نے انعامات دیے، یہ قدم بہت مستحسن ہے مگر یہ کام تو وزارتِ اطلاعات کے شعبۂ فلم کا ہے یا پھر اسے پی۔این۔سی۔اے کو کرنا چاہئے تھا۔ آخر یہ غلط ملط جان بوجھ کر یا کسی منصوبہ بندی کے تحت کی جارہی ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ایف۔ایم ریڈیو پر دو گھنٹے کے پروگرام کیلئے بلایا گیا۔ اس ادارے کے متعلق بھی معلوم ہوا کہ اطلاعات اور ایک مقتدرہ ادارے کے اشتراک سے یہ ایف۔ایم نشریات چوبیس گھنٹے چلتی ہیں۔یہ الگ بات کہ ہم جیسے ضعیف لوگوں کو بلا کر معاوضہ… اوہو! یہ تو رضاکارانہ کام تھا، سات گھنٹے کی اس ڈیوٹی کے بعد واپس دفتر پہنچی تو تازہ المناک خبر نے مجھے ڈھیر کردیا۔ ٹی وی کی بنیادوں سے لے کر ٹی وی کے ہر سنجیدہ ڈرامے میں جس کا کام اور عزت ہر پاکستانی کے دل میں تھی، وہ چلی گئی تھی۔

خورشید شاہد نے ریڈیو، اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں پر اپنے ہنر کا مظاہرہ کیا۔ اس نے جس پروگرام میں بھی حصہ لیا، اپنی شرائط اور عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا۔ وہ عجیب عورت تھی۔ ساری رات جاگتی، پان کھاتی اور صبح چار بجے سوتی تھی۔ پروگرام کرنے والوں کو علم تھا کہ دوپہر تین بجے کے بعد اس سے بات کی جاسکتی ہے۔ وہ کام کرنے اور انتھک کام کرنے کیلئے ہمیشہ تیار، فقروں کی ادائیگی میں اس کا تحمل اور برداشت نظر آتا تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا، ذہین اور ماں کی طرح اپنا انفرادی اسٹائل لئے، اس کا نام ہے سلمان شاہد! جو اب تک ڈراموں میں نظر آتا ہے۔ اس نے بین الاقوامی فلموں میں بھی کام کیا اور کررہا ہے۔ اس کو ماں، باپ دونوں نے برطانیہ سے تھیٹر کی تعلیم دلوائی۔ باپ شاہد بی بی سی میں مسلسل کام کرتے رہے۔ خورشید شاہ نے وطن چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ سلمان نے بینا سرور سے شادی کی اور ایک بیٹی ماہا ہے۔ خورشید اور سلمان لکشمی مینشن سے پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی کے مکان میں شفٹ ہوگئے۔ بینا، ماہا کو لے کر امریکا چلی گئی مگر کانفرنسوں اور کئی فلموں کے سلسلے میں پاکستان آئی اور خورشید شاہد کے ساتھ بہت سی شامیں گزاریں۔ خورشید شاہد نے ملکہ موسیقی کے ساتھ تان پورے پر بہت عرصے تک پرفارم کیا۔ خورشید نے ایک دفعہ ملکہ موسیقی کو جوتی پیر میں پہنائی تھی۔ استادی اور شاگردی کے اس رشتے میں بہت مدت نہیں گزری کہ خورشید کو ڈراموں سے وقت نہیں ملتا تھا اور دوسرے ملکہ موسیقی نے روایتی مشرقی خامشی میں لپٹ کر دنیا سے رخصت چاہی۔

آج جبکہ مسعود اختر اور اکرام ﷲ بیمار ہیں، سمیع اہوجہ، اسد محمد خان اور حسن منظر بھی ہم سب کی دعائوں کیلئے ہمیں یاد کرتے ہیں۔ فیض صاحب نے کہا؎

آیئے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

ہم، جنہیں رسم دعا یاد نہیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)