ہم لوگ بہت برے ہیں

July 13, 2021

اس نے کہا... ’’ہم لوگ بہت برے ہیں...‘‘ پوچھا، وہ کیسے؟

کہنےلگا... ’’ہم ایک سُور کے گوشت کو حرام سمجھتے ہیں مگر کبھی کسی نے سوچا کہ ڈیوٹی پر نہ جاکر یا ڈیوٹی کم کرکے تنخواہ وصول کر لینا کیا ہے؟ کبھی ہمارے ہاں سوچا گیا کہ بہن کو حق نہ دینا کسی طور درست نہیں، یہاں تو لوگ بھائیوں کو بھی حق نہیں دیتے بلکہ جائیداد اور دولت کی محبت میں بھائی بھائیوں کو قتل کر دیتے ہیں، ہم لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، ہم میں سے ہی بعض لوگ بچوں پر تشدد کرتے ہیں، ایسی ایسی بدفعلیاں کرتے ہیں کہ انسانیت شرما جاتی ہے، کچھ لوگ ایسے مرحلوں پر سوچتے ہیں کہ کیا یہ اشرف المخلوقات ہیں؟ ہم لوگ کیوں نہیںسوچتے کہ ملاوٹ کرنا، سود کھانا، سور کھانے سے کہیں زیادہ برے عمل ہیں...‘‘۔

مگر ہم سب برے کیسے بن گئے؟

میرے سادہ سےسوال پر وہ بولا... ’’جی ہاں، ہم سب برے ہیں، ہم ظلم کرتے ہیں مثلاً سماج میں رشتوں ہی کو دیکھ لیجئے، کیا رشتوں کا تقدس برقرار ہے؟ جواب آئے گا نہیں۔ کیا لوگ ماں باپ کا ویسے ہی احترام کرتے ہیں جیسے ایک صدی پہلے کیا کرتے تھے، کیا آپ کے معاشرے میں یہ نہیں ہو رہا کہ لوگ اپنے والدین کو دھکے دے کر گھروں سے نکال دیتے ہیں، بعض تو محض جائیداد کے حصول کے لئے ان پر ظلم کرتے ہیں، اسلام آباد میں ڈپٹی سیکرٹری ریٹائرڈ ہونے والے ایک شخص پر اس کے بیٹوں کا پریشر تھا کہ وہ فلاں فلاں جائیداد ان کے نام منتقل کرے۔ جب ریٹائرڈ افسرنے کچھ عرصہ ٹھہرنے کے لئے کہا تو بیٹوں نے باپ کو سنگل ڈال کر قید کردیا۔ لاہور میں باپ نے جائیداد بیٹوں کے نام منتقل کی پھر بیٹوں نے باپ کو گھرسے نکال دیا، لاہور ہی میں ایک بیٹا اپنے باپ کو لے کر اولڈ ہوم آتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھیں اور اگر یہ مر جائے تو مجھے فون نہ کرنا۔ اسلام آباد میں بیوہ عورت نے اپنے دو بیٹوں کو محنت کرکے پڑھایا کیونکہ باپ اس وقت مر گیا تھا جب بچوں کی عمریں تین چار سال تھیں۔ ماں کی محنت سے بچے پڑھ گئے پھر ایک بیٹا امریکہ چلاگیا، دوسرے نے ماں کو سرونٹ کوارٹر میں منتقل کیا، وہیں ماں مر گئی جبکہ بیٹا بیوی بچوں سمیت کسی مغربی ملک میں سیر سپاٹے پر تھا۔ اب آپ بھائی کے رشتے پر آ جائیں، وہ جائیداد کے چکر میں اپنے ہی بھائیوں کو مار دیتا ہے، ایک بھائی دوسرے کو کھاتا نہیں دیکھ سکتا۔ میرے علم میں ہے کہ شہروں میں کام کرنے والے کچھ بھائیوں نے اپنی کمائی گائوں والے بھائیوں کو بھجوائی کہ اس سے زمین خریدو، جب شہر والے بھائی بوڑھے ہوئے تو انہوں نے گائوں والے بھائیوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ تمام زمینیں تو گائوں والے بھائی کے نام ہیں۔ شہر والوں کے لئے کورا جواب ہے۔ سو بھائی، بھائیوں کا حق کھا گئے۔

اب بہنوں اور بیٹیوں کا قصہ بھی سن لو، ہمارے معاشرے میں لوگ انہیں حصہ ہی نہیں دیتے، ہمارے معاشرے کے بڑے جاگیردار بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں نہیں کرتے کہ کہیں جائیداد تقسیم نہ ہو جائے بلکہ ان کی شادیاں مذہبی کتابوں سے کروا دی جاتی ہیں۔ کبھی استاد اور شاگرد کا رشتہ بڑا خوبصورت تھا اب توہین آمیزی میںبدل چکا ہے، کبھی ہمارے معاشرے میں ہمسائے کا بڑا احترام تھا، لوگ ہمسایوں کا خیال رکھتے تھے مگر اب ہمسائے ایک دوسرے پر گولیاں برساتے ہیں کسی کو کوئی پروا نہیں کہ ہماری ہمسائیگی میں کون بھوکا سویا، کون مر گیا؟ ہمارے معاشرے میں لوگ رشتے کرتے وقت دولت اور جائیداد دیکھتے ہیں، کوئی کردار نہیں دیکھتا، کسی کا دھیان اخلاقیات کی طرف نہیں جاتا، کسی کو یہ سوچنے کی توفیق نہیں کہ یہ جائیداد حرام کی کمائی سے بنی یا حلال کے روپے سے۔ الیکشن میں بھی لوگ بدمعاشوں اور ڈاکوئوں کو جتوا دیتے ہیں، رہ گیا انصاف تو وہ کہاں ملتا ہے۔ لوگوں کو انصاف کے لئے دھکے کھانا پڑتے ہیں اگر ایک غریب آدمی کا بھائی قتل ہو جائے تو اس کے تین چار طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ قتل کے فوراً بعد پوسٹ مارٹم،تدفین، فاتحہ خوانی پر آنے والے مہمانوں کی آئوبھگت پھر رسومات پر اٹھنے والے اخراجات، اس کے بعد تھانے میں ایف آئی آر درج کروانا اور اس دوران پولیس کی واردات سے بچنا، گواہوں کا بندوبست کرنا، یہ سب خرچہ مانگتے ہیں۔ اس کے بعد عدالتوں کا رخ کرنا، جہاں وکیلوں کو فیس بتاتے وقت کسی کی غربت کاکوئی احساس نہیں ہوتا، کیس جیتنے کا بھی مسئلہ۔ اس پورے عرصے میں قتل ہونے والے بھائی کی بیوہ اور اس کے بچوں کے اخراجات بھی برداشت کرنا، کیا یہ ظلم نہیں؟ ہمارے ہاں تو لوگ تھک جاتے ہیں، انہیں انصاف نہیں ملتا۔ سمندر پار رہنے والے ہمارے پیارے پاکستانیوں کی جائیدادوں پر کوئی اور نہیں ان کے اپنے رشتے دار ہی قبضہ کرتے ہیں، کوئی جائیداد کے حصول کے لئے کوشش کرے تو اسٹے آرڈر آ جاتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ نہیں جو دکھ، تکلیف اور دھوکہ تو انسانوں کو دیتے ہیں اور پھر ﷲ سے معافیاں مانگتے ہیں، کیا اپنے جیسے انسانوں پر ظلم کرنا بری بات نہیں...‘‘ بقول غزالہ حبیب ؎

مجھ سے خوشیوں کو مانگنے والے

زندگی غم کا گوشوارہ ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)