منافرت پر سیاست نہ چمکائیں

July 15, 2021

قومی ریاستوں کا جدید تصور انسانی شعور کے ارتقائی سفر کا ثمر ہے جس کا بڑا حاصل یہ ہے کہ طاقت کے زور پر بڑی بڑی سلطنتیں (EMPIRES) قائم کرنے کا نظریہ دم توڑ گیا ہے جس طرح انسانیت کے عظیم ہیرو ابراہم لنکن کی ولولۂ انگیز جدوجہد سے غلامی کی لعنت کا کرۂ ارضی سے خاتمہ ہو ا، اسی طرح قومیت کے جدید تصور نے اقوامِ دیگر کو غلام بنانے کی شیطانی سوچ کا بھی بہت بڑی حد تک خاتمہ کر دیا ہے۔

اس کامیابی کو تسلیم کرنے کے باوجود قومیتی تصور میں موجود کچھ قباحتوں کی درستی یا ضرورتِ اصلاح سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن قومیتی نظریے کی تطہیر اسی وقت ممکن ہے جب سچائی، اخلاقی و تہذیبی بلندی، انسان نوازی یا اعلیٰ انسانی اقدار کو حاوی ہونے دیا جائے۔ کوئی امریکی ہو یا چینی شہری اس سے یہ تقاضا ہرگز نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت اپنے ملک یا قوم کے موقف کو سچا ثابت کرنے پر کمربستہ رہے گا حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس بھی ہوں۔ کسی بھی چینی شہری کو علانیہ اس سچائی کے اظہار کا حق ہونا چاہئے کہ چینی ریاست نظریۂ جبرپراستوار ہے اور امریکی سماج آزادی اظہار کی پاسداری پر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمارے جیسے گھٹن زدہ معاشروں میں امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے نوم چومسکی کے خیالات کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے لیکن امریکی سماج کے اِس قابلِ تحسین پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جس کے چوراہے پر کھڑے ہوکر وہ نہ صرف حکومتی بلکہ ریاستی پالیسیوں یا ترجیحات کے لتے لیتا ہے۔ اپنی ریاست پر تنقید کرتے ہوئے وہ توازن کی حدود کو بھی پھلانگ جاتا ہے لیکن مجال ہے کوئی اس کا بال بھی بیکا کر سکے یا اسے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے۔ یہی آزاد امریکی جمہوری سسٹم کی عظمت کا کمال اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا تقابل ذرا اپنے ریاستی سسٹم سے کریں تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔

یہاں جو بھی اقتدار میں آنا چاہتا ہے وہ بظاہر عوامی نعرے لگائے گا مگر عوامی اجتماعات میں کھڑے ہو کر بھی بین السطور طاقتوروں سے تعلق استوار کرتا رہا ہوگا۔ بچگانہ و بےڈھنگا زور لگایا جا رہا ہوگا کہ میں تو وطن پرست اور ریاستی طاقت کا خادم ہوں جبکہ دوسرے سب ریاست دشمن ہیں، وہ مودی کے یار ہیں۔ یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ایک طرف پوری قوم میں اس سوچ پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بشمول بھارت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے دوستانہ تعلقات قائم کرنا خود ہمارے اپنے قومی مفاد میں ہے، جنگیں مسائل کا حل نہیں، بلکہ اُن کی ہیں۔ پچھلی چار جنگوں میں ہم نے سوائے اپنی معاشی و قومی بربادی کے کچھ حاصل نہیں کیا۔ جنگوں سے ملک و قوم کو اور ہماری ابھرتی ہوئی قومی معیشت کو سوائے کئی برس پیچھے دھکیلے جانے کے کیا ملا؟ آج حکومت کو طعنہ دیا جا رہا ہے کہ اس نے کشمیر کا سودا کیا یا بیچ دیا۔

انڈین وزیراعظم سے اچھے تعلقات یا دوستی اگر اتنی بری چیز ہے تو ایک انڈین وزیراعظم کی اسلام آباد آمد پر اس کی خوشنودی کے لئے دارالحکومت میں لگے کشمیر کے تمام بورڈ کس پاکستانی لیڈر نے اتار پھینکوائے تھے؟ ذرا اسی لہجے میں کسی روز اس کی بھی مذمت کردیں، اسے بھی راجیو گاندھی کی یاری کا طعنہ دے ڈالیں، انصاف کا تقاضا تو یہی ہے۔ اے بھولے بچو، جانے دو اتنی بڑی بڑی نہ چھوڑا کرو، عصرِ حاضر میں کٹھ پتلی بن کر اقتدار کا حصول کوئی بُری چیز نہیں ہے، یہ تو وقتی مواد ہے جو کسی کھلاڑی کو بھی مل سکتا ہے مگر اختتام کیا ہے؟ اصل چیز اصولوں پر قائم رہنا ہے، عوامی حق کے لئے جبر کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ اپنے وطن کو منافرتوں کی دلدل سے نکالنے کے لئے شعوری سربلندی کے ساتھ دشمنیوں کو دوستیوں میں بدلنا ہے۔ میاں صاحب اور محترمہ جیسے قد آور جمہوری لیڈروں نے جبری طوفان کے تھپیڑے کھانے کے بعد یہ سیکھا تھا کہ اگر ہم نے اپنی قوم کو آگے لے کر جانا ہے تو پھر انڈیا دشمنی کے منحوس سائے سے باہر نکلنا ہے۔

اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ وہ جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہوئے کشمیر انڈیا سے چھین لے گا تو پھر دیر کاہے کی؟ کاش یہاں نوم چومسکی جیسی آزادیٔ اظہار درویش کو بھی حاصل ہو، اگر ہمیں اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کا اتنا ہی درد ہے تو ذرا آگے بڑھتے ہوئے ایک نظر سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار پر بھی ڈال لیں۔ یہاں تو پھر بھی جیسی تیسی جمہوریت اور آزاد معاشرے کی سات دہائیوں پر محیط ایک تاریخ ہے جبکہ اس سے آگے جو چیخیں نکل رہی ہیں، ان کی گونج مغرب میں تو سنائی دیتی ہے قریبی ہمسائیگی میں نہیں۔ بس یہی جدید قومی ریاستی سسٹم کی وہ سب سے بڑی خامی ہے اکیسویں صدی میں جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔