ایک یادگار سبق آموز فلم ’’دوسری ماں‘‘

July 27, 2021

60ءکی دھائی میں کہانیوں کے نئے رجحانات اور موضوعات پر مبنی کئی فلمیں بنیں، جن میں انسانی رشتوں کو خاص طور پر مرکزی کردار بنائے گئے۔ یہ یادگار فلمیں اپنے موضوع، موسیقی اور شان دار ٹریمنٹ کے ساتھ عوام میں پسند کی گئیں، ایسی فلموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں 1968ء میں بننے والی ایک کام یاب گھریلو فلم ’’دوسری ماں‘‘ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ منگل 2جنوری عیدالفطر کے روز کراچی کے مرکزی سینما جوبلی میں نمائش پذیر ہوئی، جہاں اس نے 8 ہفتے مکمل کیے۔ مجموعی طور پر اس فلم کا بزنس 33 ہفتے رہا۔ باکس آفس پر اس فلم باآسانی سلور جوبلی منائی۔

کراچی کے سوسائٹی سینما کا افتتاح اس فلم سے ہوا تھا۔ حیدرآباد میں اس کا مرکزی سینما ’’نشاط‘‘ تھا۔ اس فلم کے پروڈیوسر کراچی کے مشہور بلڈرز ایس اے وائی کنسٹرکشن کمپنی کے تین پارٹنر سردار الطاف اور یاسین تھے، جن کا تعلق کراچی کی قدیم مسلم برادری سلائوٹہ جماعت سے تھا۔ معروف ہدایت اقبال اختر کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم تھی۔ اقبال اختر بنیادی طور پر فلم ایڈیٹر تھے، کراچی کے رہنے والے اقبال بہاری زبان بولتے تھے۔اس فلم کی کہانی مکالمے اور منظر نامہ حسرت لکھنوی کا تحریر کردہ ہے، جو اس سے قبل سہیلی، دامن جیسی اصلاحی اور فیملی ڈرامائی فلمیں لکھ چکے تھے۔

فلم کی کاسٹ میں شمیم آرا، کمال، روزینہ، لہری، نرالا، حنیف، ماسٹر شوکی (بے بی نعیمہ گرج) بے بی شاہینہ، سنتوش ، مہتاب بانو، کمال ایرانی، آزاد، سکندر، خورشید کنول، آغا سرور، قربان جیلانی، چھم چھم، آفتاب، شرافت، بے بی ہما، مسرت جبین، راشد، رنگیلا کراچی والا، افضل، مقصود انصاری، رفیق نانی والا، گورنر، جہانگیر مارواڑی، ابو استاد وغیرہ شامل تھے۔

فلم کی مختصر کہانی کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے۔ شیخ صاحب (آزاد) اور میر صاحب (کمال ایران) اپنی دوست کو مضبوط بنانے کے لیے بچپن میں ارشد (کمال) اور رضیہ (میر صاحب کی بہن ہے)۔ ایک دن کوئٹہ میں شدید زلزلہ آنے کی وجہ سے یہ دونوں خاندان بچھڑ جاتے ہیں۔ شیخ صاحب اپنے بھائی اور بیگم زینت (سنتوش ریل) کے ہمراہ کراچی آکر آباد ہوجاتے ہیں۔ رضیہ کو انہوں نے بہت تلاش کیا، مگر وہ اور اس کے بھائی کا پتہ نہ چلا۔ اس دوران ارشد جوان ہوگیا اور اس کی شادی ایک اور رضیہ نامی خاتون (مہتاب بانو) سے ہوجاتی ہے، جو ایک بیٹے شوکی (بی بی نعیمہ) کو جنم دےکر فوت ہوجاتی ہے۔ ارشد رضیہ کی موت کا صدمہ بھلانے کے لیے شراب نوشی اور کلب جانے کا عادی ہوجاتا ہے۔

ماسٹر شوکی کی دیکھ بھال زیادہ تر اس کے بڑے بھائی اور بہاوج کرتے ہیں۔ ایک روز شوکی اپنے باس سے وعدہ کرلیتا ہے کہ وہ شراب پئے گا، تو اپنے بیٹے کا خون پئے گا۔ ارشد شوکی سے شراب نہ پینے کا وعدہ کرتا ہے۔ ارشد کے دو ملازم جمن (لہری) مٹھو (نرالا) گھر کی ملازمہ کریمن (روزینہ) سے عشق لڑاتے ہیں۔ جمن کی ایک بیٹی (بے بی شاہینہ) بن ماں کی ہے، جسے جمن نے اپنے ماموں سکندر اور مومانی خورشید کنول کے پاس رکھا ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی بچی پر بے حد ظلم کرتے ہیں۔ جمن ایک روز دونوں کو اپنی بچی کو مارتے دیکھ کر بچی کو لےکر اپنے مالک ارشد کے گھر آتا ہے۔

کریمن اس بچی کو اپنی بیٹی بنالیتی ہے اور پھر وہ جمن کی بیوی بن جاتی ہے۔ مٹھو بے چارہ ہاتھ ملتے رہے جاتا ہے۔ شوکی کے ذہن میں ایک جمن یہ بات ڈالتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو دوسری شادی کرنے کا کہے۔ اس طرح اسے دوسری ماں مل جائے گی۔ شوکی اپنے باپ سے دوسری شادی کرنے کی ضد کرتا ہے، تو ارشد کہتا ہے، اچھا اگر تمہیں دوسری ماں چاہیے تو جاکر خود اپنے لیے دوسری ماں تلاش کرو ، میں اسے تمہاری پسند سمجھ کر اپنا لوں گا۔ یہ سُن کر شوکی دوسری ماں کی تلاش میں شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں گھومتا اور گاتا پھرتا ہے۔

’’سنئے تو محترمہ آپ کو زحمت ہوگی‘‘ شوکی کا ایک کار سے ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے۔ اسپتال میں اسے لیڈی ڈاکٹر رضیہ (شمیم آرا) ملتی ہے، جو اس کی دیکھ بھال ایک ماں کی طرح کرتی ہے۔ اسی اسپتال کا ایک شیطان ڈاکٹر سلطان (حنیف) جو رضیہ کو پسند کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ تم تو اس کی دیکھ بھال اس طرح سے کررہی ہوں، جیسے تم ہی اس کی ماں ہو۔ شوکی، ڈاکٹر رضیہ کو اپنی سال گرہ میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔ شوکی اپنے باپ ارشد کو کہتا ہے کہ مجھے دوسری ماں مل گئی۔ وہ ڈاکٹر رضیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شیخ صاحب اور ان کی بیگم جب رضیہ کے گھر جاتے ہیں، تو میر صاحب جو زلزلے میں اپاہج ہوگئے تھے، ان کو دیکھ کر بے حد خوش ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ رضیہ اور اس کا بھائی زندہ ہے، لیکن شیخ صاحب ابھی اس بات کو راز رکھتے ہیں۔ ارشد کو نہیں بناتے۔ ماسٹر شوکی کی سال گرہ کے موقع پر شیخ صاحب، رضیہ کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ رضیہ اور بچے ملکر گاتے ہیں۔

’’سالگرہ پر تجھ کو دُعا دوں اور کیا میرے لعل جئے ہزاروں سال تو منے جئے ہزاروں سال‘‘۔ سال گرہ کے موقع پر ڈاکٹر سلطان کی آمد اور رضیہ سے بے تکلفی ارشد کو بری لگتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ رضیہ، ڈاکٹر سلطان کو پسند کرتی ہے، شیخ صاحب رضیہ کے لیے ارشد سے بات کرتے ہیں، تو وہ شادی سے انکار کردیتا ہے۔ رضیہ ارشد کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شوکی اس معمے کو حل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے، ارشد بھی تمام حقیقت سے واقف ہوجاتا ہے کہ رضیہ سے اس کا بچپن میں نکاح ہوگیا تھا۔ اس طرح شوکی کو دوسری ماں مل جاتی ہے، جو اسے سگی ماں کی طرح پیار دیتی ہے۔

جہاں تک فلم میں اداکاروں کی کارکردگی کا ذکر آتا ہے تو چائلڈ اسٹار ماسٹر شوکی نے اس فلم میں اپنی چوں کہ دینے والی اداکاری سے لوگوں کو متاثر کیا۔ ماسٹر شوکی جو آج اسٹیج اور ٹی وی کی معروف اداکارہ نعیمہ گرج کے نام سے اسٹیج کی دنیا میں اپنی شہرت رکھتی ہیں۔ اس فلم کو اگر نعیمہ گرج کی فلم کہیں تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ کہانی کا اہم کردار ہے، کہانی ایک بِن ماں کے بچے پر بیس کرتی ہے، نعیمہ گرج کی فطری اداکاری نے اس کردار کو خوب ادا کیا۔ فلم کا عنوانی کردار اپنے دور کی سپر اسٹار شمیم آرا نے اداکیا، انہیں گھریلو، رومانی اور سنجیدہ کرداروں پر جو ملکہ حاصل تھا۔اداکار کمال نے ماسٹر شوکی (نعیمہ گرج) کے والد کے کردار کو نہایت سنجیدگی سے ادا کیا ہے۔ اس فلم میں انہوں نے اپنی شوخ اداکاری کے بہ جائے اپنی سنجیدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

لہری اور نِرالا نے کمال کے ملازمین کے کرداروں میں اپنی مزاحیہ اداکاری کا رنگ خوب جمایا، جب کہ ان کے درمیان اپنے زمانے کی خُوب صورت اداکارہ روزینہ نے کریمن کے کردار میں دونوں کی محبوب بن کر فلم بینوں کو بے حد محظوظ کیا۔ اداکار حنیف نے بہ طور وِلن ڈاکٹر سلطان کا روایتی کردار ادا کیا، ایک موقع پر ماسٹر شوکی کلفٹن پر فلمائے ہوئے ایک منظر میں حنیف کے بارے میں کہتا ہے ’’اپنے آپ کو بڑا دلیپ کمار سمجھتا ہے‘‘ سنتوش ریل آزاد، کمال ایرانی، آغا سرور، قربان جیلانی، اپنے اپنے کرداروں میں بے حد کام یاب رہے۔ یہ فلم اسٹار سنگیتا اور کویتا کی والدہ مہتاب بانو نے کمال کی بیوی کے مختصر کردار کو نبھایا۔

ہدایت کار اقبال اختر نے تمام اداکاروں سے بہت عمدہ کام کروایا۔ بچے اداکاروں سے کام لینا کتنا مشکل ہوتا ہے، انہوں نے اس مشکل کو اپنی ذہانت سے آسان بنایا اور ماسٹر شوکی، بے بی شاہینہ، بے بی ہما اور سال گرہ میں شامل تمام بچوں سے بہت ہی عمدہ اور متاثر کن کام لیا۔ فلم کے موسیقار لال محمد اقبال نے بہت عمدہ دھنیں ترتیب دیں، جن پر مسرور انور کے بولوں نے ان دھنوں کو عوامی مقبولیت دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اپنے موضوع، نغمات اور بہترین کہانی کی وجہ سے اس فلم کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ خواتین نے اس فلم میں شمیم آرا اور ماسٹر شوکی کی کردار نگاری کو بہت زیادہ پسند کیا۔