منظور شدہ اصلاحات پر عملدرآمد نہ ہونے سے عشرت حسین بیزار ہوئے

July 31, 2021

اسلام آباد (انصار عباسی) ڈاکٹر عشرت حسین بیزاری کے احساس کے ساتھ حکومت چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ اصلاحات لانے کیلئے ان کے کام کو کابینہ کی منظوری ملنے کے باوجود سیاسی سطح پر ایگزیکٹو اتھارٹی کے مزے لوٹنے والوں کی بے دلی اور عملدرآمد کے چینلجز کا سامنا ہے۔

اگرچہ میڈیا کو جو وجوہات بتائی گئی ہیں اُن میں ڈاکٹر عشرت نے ایسی کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا لیکن باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ عشرت حسین حکومت نے مفصل مشاورتی عمل کے نتیجے میں جامع اصلاحاتی پیکیج جاری کیا اور اسے کابینہ سے بھی منظور کرایا لیکن عملدرآمد اب تک نہیں ہو پایا۔

سویلین بیوروکریسی میں سیاست کا زبردست عمل دخل ہمیشہ سے ہی خراب کارکردگی اور عدم صلاحیت کا سبب رہا ہے جو اب بھی جوں کا توں جاری ہے اور پنجاب کی بات کی جائے تو حالات بد سے بد تر ہو چکے ہیں اور اُس سطح پر جا چکے ہیں کہ افسران کو ان کے عہدوں کی معیاد کا احترام کیے بغیر اکثر و بیشتر تبدیل کیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر تین سال کی معیاد کے برعکس، پنجاب میں افسران کو ہفتوں اور مہینوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عشرت حسین نے کچھ مرتبہ وزیراعظم سے بھی بات کی تھی کہ سویلین بیوروکریسی میں سیاست کے عمل دخل خصوصاً پنجاب میں اس مسئلے کو حل کیا جا سکے کیونکہ اس سے کارکردگی اور خدمات کی فراہمی کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے، تاہم، صورتحال جوں کی توں رہی۔ عشرت حسین کی ٹاسک فورس نے 10؍ ایسے سرکاری اداروں کیلئے اصلاحات اور ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں متعارف کرائیں تھیں جو خسارے کا شکار تھے۔

ان اداروں میں پی آئی اے، ریلویز، پاکستان اسٹیل ملز اور حکمرانی کیلئے اہم سمجھے جانے والے ادارے جیسا کہ ایف بی آر، آڈیٹر جنرل، ایس ای سی پی وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، زیادہ تر معاملات میں وزارتیں ان اصلاحات پر عمل کے معاملے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ عشرت حسین کی زیر قیادت ٹاسک فورس کا تیار کردہ کام سرکاری فائلوں تک ہی محدود ہے۔

اصلاحات کا بنیادی مقصد سویلین بیوروکریسی کی کارکردگی بہتر بنانا اور حکومت کی جانب سے خدمات کی فراہمی میں وسعت پیدا کرنا تھا۔ لیکن، حکومت میں بیٹھے کئی لوگوں کی طرح عشرت حسین کو بھی نیب کے کردار پر تشویش رہی کیونکہ یہ ادارہ سویلین بیوروکریسی کو پریشان کرتا رہا ہے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ چند مرتبہ عشرت حسین نے کابینہ کے اجلاس میں نیب کا معاملہ اٹھایا اور اس کے شتر بے مہار اختیارات کو لگام دینے کا مطالبہ کیا کیونکہ انہیں استعمال کرکے بیوروکریسی کو ہراساں کیا جا رہا ہے، اور بیوروکریسی اسی خوف کی وجہ سے فیصلے نہیں کر رہی۔ جمعہ کو عشرت حسین نے اپنے استعفے کے حوالے سے صحافیوں کیلئے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے:

آپ میں کچھ لوگ میرے استعیفے کے حوالے سے مجھے فون کرکے رابطہ کر رہے ہیں اور کچھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پیغامات بھیج رہے ہیں اس لئے میں آپ کے ساتھ یہ نوٹ شیئر کر رہا ہوں۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے بحیثیت مشیر وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے اور انہیں درخواست کی ہے کہ مجھے میری ذمہ داریوں سے یکم ستمبر 2021ء سے سبکدوش کیا جائے۔

وزیراعظم ہمیشہ مہربانی سے پیش آئے، میں نے یہ ذمہ داری اسلئے قبول کی تھی کہ اس سے ملک میں گورننس کا ڈھانچہ بہتر کیا جائے تاکہ معیشت بہتر اور غریب کو فائدہ پہنچے۔ گزشتہ تین سال کے دوران میں نے مندرجہ ذیل اصلاحات مرتب کیں اور انہیں کابینہ سے منظور کرایا:

وفاقی حکومت کی از سر نو ڈھانچہ سازی اور سرکاری ادارے 441؍ سے کم کرکے 307؍ تک لا کر قومی خزانے پر بوجھ کم کرنا۔ پی آئی اے، ریلویز، پاکستان اسٹیل ملز اور گورننس سے جڑے اہم اداروں جیسا کہ ایف بی آر، آڈیٹر جنرل اور ایس ای سی پی جیسے خسارے کا شکار 10؍ ریاستی اداروں کی از سر نو ڈھانچہ سازی اور اصلاحات۔

پبلک فنانس مینجمنٹ لاء متعارف کرانا جس کے تحت وزارت خزانہ کے اختیارات وزارتوں کو تفویض کیے گئے، اور وفاقی وزارتوں میں کارکردگی اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے الیکٹرانک آف سوئیٹ متعارف کرانا۔ سول سروسز اصلاحات لانا جیسا کہ وزیراعظم اور وزراء کے درمیان کارکردگی کے معاہدے اور نیا پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرانا۔

ایکس کیڈر افسران کی منظم تربیت، وفاقی وزارتوں میں تکنیکی ماہرین کی شمولیت، سیکریٹریٹ میں مخصوص اسٹریم متعارف کرانا، شاخ در شاخ دفاتر میں کمی لانا، پروموشن کی نئی پالیسی اور ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ رولز متعارف کرانا۔ سرکاری اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر چیف ایگزیکٹو افسران اور ایم ڈیز کے شفاف تقرر کی پالیسی بنانا۔

اس عمل کے ذریعے اب تک 62؍ تقرریاں کی جا چکی ہیں اور کئی اوورسیز پاکستانیز کو منتخب کیاجا چکا ہے۔ کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات (سی سی آئی آر) کا قیام انہی اصلاحات پر عمل کی نگرانی کیلئے کیا گیا تھا۔ میں نے حکومت میں اسی سوچ کے ساتھ شمولیت اختیار کی تھی کی تین سال تک کام کروں گا او ر80؍ سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائوں گا۔

اب میں نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ مجھے ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جائے۔ میں نے 57؍ سال تک عوام کی خدمت کی ہے جن میں سے 15؍ سال سول سروس، 21؍ سال ورلڈ بینک میں جبکہ 6؍ سال اسٹیٹ بینک میں، این سی جی آر کے چیئرمین کی حیثیت سے دو سال، آئی بی اے میں 8؍ سال جبکہ تین سال موجودہ حکومت میں کام کیا ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ میں کام کاج بند کرکے دبائو سے پاک زندگی گزاروں اور اپنے پوتے پوتیوں کو وقت دوں اور اپنی دوسری دلچسپیوں میں وقت صرف کروں۔

تاہم، غیر سرکاری حیثیت سے معاشی، سماجی اور فلاحی کاموں اور تحقیق میں مدد کیلئے میں ہمیشہ دستیاب رہوں گا، میری ملک کیلئے خدمت کا عزم آج بھی قائم ہے کیونکہ اسی کی بدولت میں اس مقام پر پہنچا ہوں۔