اب بھی وقت ہے

August 10, 2021

اِس دفعہ ارادہ تھا کہ میں پاکستان کے معاشی حالات پر کچھ گزارشات پیش کروں۔ پاکستان پر بڑھتے ہوئے اندرونی و بیرونی قرضے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی وجہ سے معیشت پر ناروا بوجھ، شدید مہنگائی کی لہر جس نے پاکستانی عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے ’’روز افزوں بڑھتے ہوئے بجلی کے نرخ‘‘ اور اُس سے جڑے دیگر مسائل پر بات کی جائے لیکن پاکستان کے پڑوس افغانستان میں بدامنی کے شعلوں، اسکی وجہ سے پاکستانی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور اس سنگین صورتحال کے باوجود پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی لاتعلقی نے مجھے اِس موضوع پر لکھنے کی طرف متوجہ کیا۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کی وجہ سے خدشہ ہے کہ 5سے سات 7لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ افغان بارڈر کھولنے کی صورت میں ملک کی معیشت اور سماج پر شدید منفی اثرات مرتب ہونگے اور اگر پاکستان اپنے بارڈر بند کر دیتا ہے تو پھر اقوامِ متحدہ اور ورلڈ بینک کی جانب سے مہاجرین کی مد میں ملنے والی امداد متاثر ہو سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ داسو بم دھماکہ کے متعلق قرار داد کا منظور ہونا پاکستانی دفتر خارجہ کی کارکردگی کی چغلی کھا رہا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت دنیا بھر میں پاکستانی سفارت کاروں کی کارکردگی بدترین ہے۔ یورپ اور خلیجی ریاستوں میں مقیم پاکستانی ان سفارتکاروں کی نااہلی کا شکار ہوتے ہیں اور ہر روز خراب کارکردگی کی نئی کہانی منظر عام پر آتی ہے۔ کمرشل اتاشی اور دیگر سفارتی اہلکار، نااہلی اور نالائقی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں سفارتی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی نمائندہ کو سلامتی کونسل میں گفتگو تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر وزیراعظم ان سفارتکاروں سے ان کی کارکردگی کے متعلق جواب طلبی کر لیں تو افسر شاہی کے مزاج پر گراں گزرتا ہے۔ میں قائداعظم محمد علی جناح کے ویژن کے مطابق جمہوری اقدار اور سویلین بالادستی پر بھرپور یقین رکھتا ہوں لیکن سنگین حالات میں پاکستانی سیاسی اشرافیہ کی بےخبری اور لاتعلقی سے قوم میں اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ ان حضرات کے ویژن کا یہ عالم ہے کہ آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران بھارتی مظالم کا ذکر کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کیے گئے، اس سے کشمیری اور پاکستان عوام سخت مایوس ہوئے۔ افغانستان کی گھمبیر صورتحال پر سیاسی قیادت کو آگاہ کرنے کیلئے 2جولائی 2021ءکو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، اعلیٰ فوجی قیادت اور شہباز شریف بلاول بھٹو سمیت تمام سیاسی قیادت بھی موجود تھی۔ یہ اجلاس 8گھنٹے جاری رہا۔ اجلاس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے انتہائی نپے تلے انداز میں قوم کو اس بریفنگ کے متعلق خبر دی۔ جملہ سیاسی قائدین نے بریفنگ پر اطمینان ظاہر کیا البتہ نجی محافل میں وہ دوسری رائے کا اظہار بھی کرتے رہے۔ ہمارے سیاسی قائدین سرد گرم چشیدہ ہیں لیکن پھر بھی سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود اپنے ذاتی مفادات کیلئے لڑائیاں لڑنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم گزشتہ دور حکومت میں احتجاج کی روش اختیار کیے ہوئے تھے۔ اُنکے طویل دھرنے کے باعث چینی صدر کا دورہ اور سی پیک منصوبہ التوا کا شکار ہوا جس کا نقصان پاکستان اور پاکستانی قوم کو ہوا۔ 2018ءکے انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسی روش پر چلتے ہوئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے احتجاج کا ایک طویل اور لایعنی سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں قوم کے دو سال ضائع ہو گئے۔ پاکستانی عوام یہ بات سمجھنا چاہتے ہیں کہ یہ ٹوپی ڈرامہ کب تک چلے گا۔یوں تو GOOD COPاور BAD COPکی اصطلاح مسلم لیگ ن کے قائدین کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ کیفیت ہر سیاسی جماعت میں موجود ہے۔ ہمارے قائدین کی دوعملی قوم کو کس طرف لے جائے گی۔ قوم سیاسی جماعتوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آپ کو اپنے اندرونی نظام میں جمہوریت لانے سے کس نے روکا ہے؟ مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے حکومتی جماعت کس مسیحا کا انتظار کر رہی ہے؟ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ایل این جی کی مہنگے داموں خریداری میں بھی اپوزیشن کا ہاتھ ہے؟ انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی خود مختاری، چیئرمین نیب کی تقرری پر اتفاق رائے کرنے سے سیاسی جماعتوں کو کس نے روک رکھا ہے؟ سیاسی جماعتوں کے اس رویے کی وجہ سے تمام جمہوریت پسند نالاں ہیں اور جب بات کارکردگی پر آتی ہے تو سارا ملبہ مقتدر اداروں پر ڈال کر اُن پر چڑھ دوڑنے کی روش اختیار کر لی جاتی ہے۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں دو عملی کا شکار نہ ہوتیں تو ڈان لیکس کے معاملے پر وزرا سے استعفے نہ لئے جاتے۔ اسامہ بن لادن کے معاملہ پر خط لکھ کر واپس نہ لیا جاتا۔ ہمارے سیاسی عمل کو سیاسی قائدین نے ہی بےتوقیر کیا ہے، یہ وہی پاکستان ہے جہاں پر چھ ماہ کابینہ کا اجلاس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے منتخب اراکین اسمبلی کی وہ تذلیل کرتے تھے جو ناقابلِ بیان ہے۔ کیا ووٹ کو عزت دو کا مطلب صرف ایک خاص طبقے کو اقتدار میں لانا ہے؟ پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جو 15سال سے سندھ میں برسراقتدار ہے لیکن کراچی جیسے شہر کو کھنڈر بنانے اور ترقیاتی فنڈز کاغذوں میں کھپانے کے سوا کیا کارکردگی ہے؟ ۔

جناب وزیراعظم! اس ساری صورتحال کو سنبھالنے کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے، آپ کو اپنی انا کا خول توڑنا ہوگا۔ میاں شہباز شریف، اسفند یار ولی خان، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری، بلوچستان کے ناراض رہنماؤں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اور ریاست کے مقتدر اداروں کیساتھ مل کر بیٹھنا ہوگا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو افغان معاملے کی سنگینی کا احساس دلا کر سیاسی سماجی اور سیکورٹی معاملات پر متفقہ موقف جاری کریں۔ خدا کیلئے کنٹینر سے اتریں۔ وزارتِ عظمیٰ کے عظیم منصب کا احساس کرتے ہوئے اپنا دل بڑا کریں۔ ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے موجودہ وزراء اعلیٰ کی جگہ باصلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل نئے وزراء اعلیٰ تعینات کریں۔ بیوروکریسی کو متحرک کریں اور انہیں اعتماد بخشیں اور باصلاحیت لوگوں کو آگے آنے کا موقع دیں۔ آپ کے پاس بہت کم وقت ہے۔ اگر آپ نے یہ وقت بھی سیاسی محاذ آرائی میں ضائع کردیا تو تاریخ کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گی۔