جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ صحیح معنوں میں کب فعال ہوگا؟

August 19, 2021

جنوبی پنجاب میں وزیراعظم عمران خان کے دیئے گئے ایک بیان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ،جس میںانہوںنے بہاول پور کے نمائندہ وفد سے ملاقات کرتے ہوئے یہ کہا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بہاول پور میں ہی بنے گا ،ان کے اس بیان پر ملتان کے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی ،کیونکہ اب تک یہی کہاجاتا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ملتان اور بہاول پور میں بنےگا اور اس کے اختیارات کی تقسیم برابربرابر ہوگی ،وزیراعظم کے اس اچانک بیان سے پی ٹی آئی ملتان کے ارکان اسمبلی اور خود شاہ محمود قریشی کے دعوے ہوا میں معلق ہوگئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک ملتان کے کسی رکن اسمبلی نے وزیراعظم کے اس بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ،حتی کہ وہ اراکین جو بہاول پور کی تقریب میں موجود تھے ،انہوں نے ملتان آکر بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا،اب باتیں ہورہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر بہاول پور کے صرف ایک رکن اسمبلی حاوی ثابت ہوئے ہیں ،وہ شروع دن سے ہی یہ کہہ رہے تھے کہ جنوبی پنجاب کو سیکرٹریٹ بہاول پور میںہی بنے گا ،ان کے ہی دباؤ پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو دوشہروں میں تقسیم کیا گیا تھا اور یہ ایک ایسی مثال قائم کی گئی تھی کہ جس کی پہلے کوئی نظیرنہیں ملتی ،اب اگروہ وزیراعظم عمران خان سے یہ کہلوانے میں کامیاب رہے ہیں کہ سیکرٹریٹ بہاول پور میں بنے گا ،تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے ،دوسری طرف یہ ملتان کے اراکین اسمبلی اور خود شاہ محمود قریشی کی بہت بڑی ناکامی ہے ،یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ ابھی چندروز پہلے ہی ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

اگر یہ معاملہ اتناہی متنازعہ اور مبہم ہے ،توپھرایسے اقدامات کی کیا ضرورت ہے ،یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے افسران تو تعینات کردیئے گئے ہیں ،مگرابھی تک رولز آف بزنس نہیں بنائے گئے اور افسران بے اختیار ہیں اور سارے معاملات اب بھی لاہور ہی سے چلائے جارہے ہیں ، رولز آف بزنس کی سمری کئی ماہ سے منظوری کی منتظر ہے ،شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ جلد ہی رولز آف بزنس بھی منظور ہوجائیں گے ،حیران کن امرہے کہ سیکرٹریٹ بن گیا ،افسران تعینات ہوگئے ،اخراجات کے لئے فنڈز مہیا کردیئے گئے ،مگر اس سیکرٹریٹ کو چلانا کیسے ہے ،اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا اور نہ کسی افسر کومعلوم ہے کہ اس نے کس اختیار کے تحت عوام کو ریلیف دینا ہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس معاملہ میں کیسے وقت کو گزارا جارہا ہے۔

ایک طرف شاہ محمودقریشی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام کرکے علیحدہ صوبہ کا ہوم ورک اتنازیادہ بڑھا دیا ہے کہ اب کوئی بھی آنے والی حکومت اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی ،مگر دوسری طرف حال یہ ہے کہ جو لولا لنگڑا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا ہے ،اس کے اختیارات بارے شدیدابہام موجود ہے ،یہ بیل کب منڈھے چڑھے گی ،کب صحیح معنوں میں سیکرٹریٹ فعال ہوگا ،کہاں بنے گا اوراس کے اختیار ات کس کے پاس ہوں گے ،یہ ان تمام سوالوں کا کسی کےپاس کوئی جواب نہیںہے ،البتہ لفاظی کرنے والے بہت ہیں اور یہ دعوی کرنے والے کہ ہم علیحدہ سیکرٹریٹ اور صوبہ کے معاملہ کو اتنا آگے بڑھا دیا ہے کہ اب اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی۔

ادھر یہ معاملات ہیں،تو ادھر یہ افواہیں زیرگردش ہیں کہ کسی وقت بھی قبل ازوقت انتخابات ہوسکتے ہیں ،اس بات کو ہوا اس لئے ملی کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پارٹی رہنماؤں و کارکنوں کو نئے انتخابات کے لئےتیار رہنے کی ہدایت کی ہے ،ادھر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی ملتان میں خاصے متحرک ہیں اور وہ غیراعلانیہ رابطہ مہم چلار ہے ہیں اورجہاں بھی جاتے ہیں ،ایک ہی بات کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اگرکوئی پارٹی ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے اور عوام کو ریلیف دے سکتی ہے ،تو وہ پیپلزپارٹی ہے ،پیپلزپارٹی ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے ،جو اس وقت پوری طرح عوامی رابطہ میں نظر آتی ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف میں بھی یہ تاثر موجود ہے کہ عمران خان 2023ء کی بجائے 2022ء میں انتخابات کا اعلان کرسکتےہیں،اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اپوزیشن کی متوقع تحریک اور حکومت کی معاشی حوالے سے بری کارکردگی دو ایسی چیزیں ہیں ،جو 2023ء تک اگر حکومت رہی ،تو اس کے لئے مذید مشکلات پید اکریں گی ،اگرقبل ازوقت انتخابات ہوتے ہیں ،تو پیپلزپارٹی سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی،کیونکہ مسلم لیگ ن انتشارکا شکار ہے ،اس کے اندر قیادت کےحوالے سے ابہام ہے اور وہ فی الوقت نئے انتخابات کے لئے تیار بھی نہیں ہے ،کیونکہ نوازشریف اور مریم نواز دونوںہی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے اور ان کے بغیر مسلم لیگ ن کا انتخابات میں جانا کوئی زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا ۔

ادھر بلاول بھٹو زرداری نے عین اس موقع پرجب پی ڈی ایم نے دوبارہ تحریک چلانے کا اعلان کیا ،تحریک عدم اعتماد لانے کا شوشہ چھوڑا اور مسلم لیگ ن کویہ دعوت دی کہ وہ اگر پنجاب اور مرکز میں تحریک عدم اعتماد لانا چاہے ،تو پیپلزپارٹی اس کا بھرپور ساتھ دے گی ،یہ کارڈ بلاول بھٹو نے اس لئے کھیلا ،تاکہ سیاسی طور پر اپنی ساکھ بچائی جاسکے اوروہ لیبل جو پیپلزپارٹی پر لگ چکا ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کی تحریک کو عین اس وقت نقصان پہنچایا ،جب وہ پوری طرح حکومت کے لئےمشکلات کا باعث بن رہی تھی اور اس صلہ میںاسے نہ صرف ریلیف ملا، بلکہ شاید آنے والے انتخابات میںاسے کچھ مذید بھی ملنے کی توقع ہو۔

جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو اس کے داخلی انتشار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دھڑے بندی کو ختم کرنے کے لئے بالآخر ایک کمیٹی بنادی گئی ہے ،کیونکہ مسلم لیگ ن ایک ایسی پرانتشار جماعت بن کررہ گئی ہے، جس کی اوپر سے لے کر نیچے تک تنظیمی حالت بہت کمزور ہے ،مقامی رہنماؤں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ شہبازشریف کا ساتھ دیں ،یا مریم نواز کا ۔نیچے تک یہ معاملہ اس لئے آیا ہے کہ پارٹی میں قیادت نے کوئی یکساں موقف اختیار نہیں کیا ،ملتان میں مخدوم جاویدہاشمی ،مسلم لیگ ن کے سینئر ترین رہنما ہیں ،مگر ان کے پاس کوئی انتظامی عہدہ نہیں ہے اور جو لوگ اس وقت مسلم لیگ میں مؤثر کردار ادا کررہے ہیں وہ جاوید ہاشمی کو آگے نہیں آنے دینا چاہتے ۔