تحریک پاکستان سے قیامِ پاکستان تک

August 26, 2021

18؍ویں، 19؍ویں صدی میں دنیا میں جس تیزی کے ساتھ تعلیم کو فروغ حاصل ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ تعلیم ہی کی وجہ سے مختلف اقوام میں نیا شعور، احساس اور جذبہ اجاگر ہوا، جو استحصالی اور سامراجی قوتوں کے باعث مجبوراً خاموش تھیں۔ تعلیمی انقلاب کے ذریعے ہی لوگوں میں آزادی کی تحریکیں بیدار ہوئیں اور باطل قوتوں کو زیر کرنے کے لئے بہت سے عظیم رہنما اور ہستیوں کے نام سامنے آئے، جس کا جیتا جاگتا ثبوت ہماری یہ ارض پاک سرزمین ’’پاکستان‘‘ ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلم گھرانوں میں انقلابی رجحان بڑھا اور ان کے لہو میں امت مسلمہ کی خدمت غالب آئی ، اس وقت کے مسلم رہنمائوں نے مسلمانوں کی بقاءکے لئے بذریعہ تعلیم تحریک پاکستان کی ابتدائی کاوش کا آغاز کیا۔

1875ء میں سرسید احمد خان نے اپنی علمی فراست اور علمی تجربے کی روشنی میں مسلمان نوجوانوں کی علمی پستی کو مدنظر رکھتے ہوئے جب علی گڑھ میں ایک اسکول کی بنیاد رکھی تو کوئی بھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی کامیابی کی پہلی سیڑھی یہ اسکول ہوگا۔ سر سید احمد خان نے مسلم قوم کی حالت بدلنے اور دیگر اقوام سے علمی سطح پر مقابلہ کرنے کےلئے نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے علی گڑھ اسکول دو سال بعد محمڈن اینگلو اورنیٹل کالج میں بدل گیا اور 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

جنوری 1883ء میں سر سید احمد خان نے وائسرائے کے کونسل اجلاس میں خطاب کے ساتھ ہی عملی طور پر تحریک پاکستان کا آغاز کردیا تھا۔ اس علم کے سفر میں نوجوان طالب علم اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایک نئے احساس کے ساتھ یکجا ہونا شروع ہوگئے تھے لہٰذا 1901ء میں لکھنئو میں نواب وقار الملک نے پہلی سیاسی انجمن کی بنیاد رکھی ،جس کا اہم مقصد مسلمانوں کی پہچان تھی، اس انجمن میں نوجوان شامل ہونا شروع ہوگئے تھے اور باقاعدہ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی، جس کا پہلا اجلاس 30؍دسمبر 1906ء کو سلیم اللہ ہال میں ہوا ،جس میں اس وقت کے نامور اور مقتدر مسلمان رہنمائوں نے شرکت کی جن میں نواب سر سلیم اللہ، نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، سر آغا خان، راجہ صاحب محمودآباد، نواب اسحاق خان، سر علی امام، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، سر علی علی محمد خان، حکیم اجمل خان، مولانا ظفر علی خان، حسین شہید سہروردی، مولانا حسرت موہانی، عزیز مرزا، بیگم شاہنواز (جہاں آراء)، صاحبزادہ آفتاب احمد خان اور محمد شفیع جیسے نام سرفہرست ہیں۔ یہ سب تعلیم کی دولت سے مالا مال، علم شناس اور علم دوست تھے۔ ان میں اہم نام محمد علی جوہر کا ہے جنہیں رئیس الاحرار کا خطاب بھی ملا۔

انہوں نے اپنی علمی تشنگی مٹانے کے لئے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ سے ڈگری حاصل کی اور واپس آنے کے بعد باقاعدہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اسی طرح مولانا شوکت علی، سید امیر علی، مولانا حسین مدنی، مولانا نثار کانپوری اور میر غلام مجدد سندھی کے نام بھی قابل ذکر ہیں، جنہوں نے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر علم کی شمع سے مسلمانوں کی اس عظیم تحریک کو جاری رکھا اور اسی طرح یہ علم کا سفر آگے بڑھتا چلا گیا۔

اس طرح کے علم کے سفر میں شامل ہونے کےلئے مسلمانوں کی ہمت، شجاعت اور حوصلے کو دیکھتے ہوئے ایک نوجوان طالب علم علامہ اقبال نے 1892ء میں فلسفے میں ایم۔اے کیا۔ 1907ء میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1908ء میں انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے واپس وطن آکر اپنی شعلہ فشاں شاعری اور اپنی خطابت سے مسلمانوں کی زندگی میں نئی جینے کی امنگ کو بیدار کیں۔

وہ مسلمانوں کو ایک قوم کی صورت میں یکجا دیکھنے کے خواہش مند تھے، اسی لئے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کا انتخاب کیا۔خطبہ الہٰ آباد 1930ء میں نوجوانوں میں ایک نئی تحریک کے تصور کو ابھارا جسے تصور پاکستان کہا جاتا ہے اور اس خواب کی ابتداء کو تعبیر بنانےکے لیے 1931ء کی گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے دنیا کو بتا دیا کہ ہمیں ایک نئی آزاد قوم کا درجہ دیا جائے۔

اسی طرح ایک اور نوجوان نے 1886ء میں وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپس ہندوستان آئے تو ابتدائی دور میں کانگریس کے لیےاپنی خدمات پیش کرتے رہے لیکن وقت، حالات کو دیکھتے ہوئے ہندوئوں اور کانگریس کی تعصبانہ سوچ اور منفی جذبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علم کی شمع اور اسلام کی تعلیمات نے ان کو جھنجھوڑ ڈالا ،چناچہ انہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کرنےکےلئے 1913ء میں مسلم لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ آپ کی کوششوں سے پہلے میثاق لکھنئو طے ہوا۔ 1929ء میں چودہ نکات پیش کئے گئے۔ 1930ء کی گول میز کانفرنس میں تمام نوجوان مسلم رہنمائوں کے ساتھ شرکت کی۔

قائداعظم محمد علی جناح کے دست راست لیاقت علی خان نے بھی 1922ء میں وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1923ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ہی اپنی سیاسی جماعت کا درجہ دیا۔ لیاقت علی خان کا شمار ان رہنمائوں میں ہے جو ایک جوش اور جذبے سے سرشار ہوکر والہانہ انداز میں خطابت کرتے تھے اور ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ ان تمام رہنمائوں کو اپنی تعلیمی صلاحیتوں پر مکمل عبور حاصل تھا ،جس کی وجہ سے تحریک آزادی میں تیزی کے ساتھ دیگر قابل شخصیات بھی شامل ہوتی گئیںاور آزادی کےلئے اپنی خدمات انجام دیں۔ اس سفر میں چوہدری خلیق الزماں، بہادر یار جنگ جیسی اہم شخصیات نے بھی نمایاں کام سر انجام دیئے۔ ان کے علاوہ تحریک آزادی میں خواتین کا تذکرہ ہر قدم پر رہا ہے، وہ بھی تمام رہنمائوں کے شانہ بہ شانہ ساتھ رہیں۔

اس میں سرفہرست ’’بی اماں‘‘ تھیں ان کے بعد بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم رعنا لیاقت علی خان، خدیجہ فیروزالدین، انوری بیگم، امیرالنساء، سیدہ سردار اختر حیدرآبادی، صغریٰ بیگم، لیڈی غلام حسین ہدایت اللہ، فیروز بانو، نصرت خانم اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بغیر یہ آزادی کی تحریک نامکمل ہے۔ یہ تمام خواتین علم کی دولت سے آراستہ تھیں اور سیاست میں ایک اہم مقام رکھتی تھیں۔ یہ تعلیم ہی کا اثر تھا کہ انہوں نے اپنی تقاریر اور خطابت سےطالبات کو اس آزادی کی تحریک میں جوق درجوق شامل کیا اور اسی علم کے سمندر نے پورے برصغیر بلکہ سرزمین انگلستان کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ مسلمان واقعی ایک قوم بن چکی ہے، انہیں اب کوئی بھی طاقت آزادی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔

23؍مارچ 1940ء قرارداد پاکستان مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے منٹو پارک لاہور میں پیش کرکے پاکستان کے قیام کی پہلی منزل کو طے کیا، جسے تمام مسلمانوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ 1940ء سے 1947ء کے درمیان قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار نے منزل کی تلاش کےلئے شب و روز انتھک محنت، جدوجہد اور کاوشوں کے سفر کو جاری رکھا، جس میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم رہا ۔

جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے آزادی کےلئے بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کیا اور وہ دن بھی آگیا ،جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں 14؍اگست 1947ء کو اس سرزمین پر ایک سبز ہلالی پرچم کے تلے ایک نیا وطن ظہور پذیر ہوا جس کا نام ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا اور آج ہم اپنا 74واں یوم آزادی بڑی شان و شوکت سے منا رہے ہیں۔ اس پس منظر اور اس تحریک آزادی کی تاریخ بیان کرنے کے اصل مقصد موجودہ نئی نسل کو وہ آگہی دینا ہے جو آزادی کے حصول کے لیے کتنےہی رہنماؤں اور نوجوانوں نے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔

آج کل طلباء امتحانات کی تیاری کے لیے تحریک پاکستان کا مطالعہ کرتے ہیں وہ بھی سرسری طور پر جبکہ نوجوان طلباءکو اپنے عظیم رہنمائوں کے نام یاد ہونے چاہیے جو تحریک پاکستان کے اہم ستون تھے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ نئی نسل کو تحریک پاکستان کے متعلق مکمل آگہی دیں کیونکہ یہ علم کا ایک لمبا سفر ہے جو اسکول سے شروع ہوا اور آزادی کی تکمیل تک جاری رہا ۔

تمام رہنما تعلیم یافتہ، باکردار اور عوام شناس تھے۔ وہ بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم سے بھی آراستہ تھے اور ان سب کا نصب العین ایک تھا ۔ وہ سب لسانی، مذہبی، سیاسی، فرقہ وارانہ سوچ کو چھوڑ کر صرف پاکستان کے قیام کے لیے متحرک تھے۔ایک زندہ قوم کے نوجوانوں کےلئے ضروری ہے کہ علم کی شمع کو مسلسل جلائے رکھیں اور ہر لحاظ سے اپنے ملک کی ترقی کی جدوجہد میں مصروف عمل رہیں۔