نوجوان مستقبل کی دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں؟

August 30, 2021

گزشتہ ایک برس کے دوران، ورلڈ اِکنامک فورم کے تحت ’گلوبل شپیرز کمیونٹی‘ نے متعدد بحث و مباحثوں اور عوامی رائے عامہ جاننے کے پروگرامز (سروے) کا انعقاد کیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی اس مہم کا مقصد ایسے مسائل کی نشاندہی کرنا تھا، جنھیں نوجوان نسل معاشرے، حکومتوں اور کاروبار کے لیے سب سے زیادہ چیلنجنگ سمجھتے ہیں۔

’گلوبل شیپرز کمیونٹی‘ کی دسویں سالگرہ کے موقع پر معاشرے، حکومتوں اور کاروبار کو درپیش 10اہم ترین مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز ’ڈیووس لیبس - یوتھ ریکوری پلان‘ کے نام سے شائع کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت کا مقصد عالم انسان کو درپیش مسائل پر نوجوان نسل کی رائے کو شامل کرنا ہے۔

اس کے متوازی ایک ’ملینئل مینیفیسٹو‘ بھی تیار کیا گیا ہے، جو کووِڈ-19کے بعد کی دنیا کو زیادہ مشمولہ بنانے کا لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔

عالمی معیشت کی بحالی کی صورتِ حال

دنیا کی 15 فی صد آبادی (تقریباً 1.2 ارب افراد) 15 سے 29 برس کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ رواں صدی کے دوران، ایک ارب مزید بچے پیدا ہونے کی توقع ہے اور اس کے نتیجے میں رواں صدی کے دوران نوجوان آبادی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ دنیا میں نوجوانوں کی آبادی میں یہ غیرمعمولی اضافہ غیرمتوازن ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ آبادی رکھنے والے اور کم ترقی پانے والے ممالک کی آبادی میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوگا۔

اس کے نتیجے میں ان ممالک کو اپنی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ غذا درکار ہوگی، نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے تعلیمی سہولیات میں اضافہ کرنا ہوگا اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ کووِڈ-19وَبائی مرض نے نوجوان آبادی خصوصاً خواتین اور لڑکیوں پر زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس نے ان کی تعلیم، تربیت، جابز، تعلقات اور ذہنی صحت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

نوجوان نسل کیا تبدیلی چاہتی ہے؟

رپورٹ کے مطابق، کووِڈ-19کے بعد کی دنیا میں نوجوانوں کی بحالی کا پروگرام 10 نکات پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

ذمہ دارانہ صارفیت

ہم جس شرح سے قدرتی وسائل کا استعمال کررہے ہیں، اسے برقرار رکھنے کے لیے مستقبل میں ہمیں 1.6 گنا زمین کے وسائل درکار ہوں گے۔ اس شرح پر خطرہ ہے کہ ہم اپنے سیارہ زمین کے سپورٹ سسٹم کو کھودیں گے، جو ہمیں تازہ پانی، غذائیت سے بھرپور کھانا اور صاف ہوا فراہم کرتا ہے۔

اس سپورٹ سسٹم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا ایسے اقدامات کرے، جن سے ذمہ دارانہ صارفیت کی حوصلہ افزائی ہو اور غیرذمہ دارانہ صارفیت کی حوصلہ شکنی۔ مزید برآں، تمام شراکت داروں کو قدرتی اور غذائی پیداوار کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے فی الفور اقدامات لینے ہوں گے۔

ڈیجیٹل رسائی

٭ دنیا کی 80فی صد سے زائد آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرنے کے لیے دو ارب ڈالر درکار ہوںگے۔ مزید برآں، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ٹیلی کام کمپنیاں صارفین کو انٹرنیٹ فراہم کرنے کی قیمت اس طرح مقرر کریں کہ وہ ماہانہ فی کس مجموعی قومی پیداوار (GNI)کے دو فی صد سے زیادہ نہ ہو۔

٭ ایسے اداروںپر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز ہے، جو شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے انٹرنیٹ بلیک آؤٹ تک چلے جاتے ہیں۔

ڈیجیٹل تعلیم

٭ ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ان کے پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شفافیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا

٭ حکومتیں ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جن سے شہریوں کو نقصان دہ آن لائن مواد سے محفوظ رکھا جاسکے۔

٭ میڈیا اداروں کو ایسے ماہرین کو آن بورڈ لینا ہوگا جو آن لائن پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی ابتدا میں ہی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

٭ شہریوں کی تعلیم و تربیت کے پروگرامز مرتب کرنا تاکہ وہ خود بھی ’فیک نیوز‘ کو پہچان سکیں۔

جمہوریت اور مستقبل

٭ خیراتی اداروں اور حکومتوں میںموجود نوجوان ترقی پسند آوازوں کو سپورٹ کریں گے۔

٭ جمہوری آزادیوں کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا اجارہ داریوں کو ختم کرنے کے خلاف قوانین کو مضبوط کرنا ہوگا۔

نوکریوں اور سماجی تحفظ کے پروگرامز میں شمولیت

٭ عالمی عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کے لیے 50ملین ڈالر سے زائد کے اثاثہ جات رکھنے والوں پر ’گلوبل ویلتھ ٹیکس‘ لاگو کرنا۔

٭ اپنے ملازمین کو نئے ہنر اور نئی صلاحیتیں سکھانے میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو ٹیکس فوائد کی پیشکش۔

٭ یونیورسٹیز کو بھاری ٹیوشن فیس کا خاتمہ کرنا ہوگا، جس کے باعث کئی خاندان اپنا سماجی درجہ بہتر نہیں کرپاتے۔

٭ یونیورسٹیوں کو مستقبل کی نوکریوں کی ضروریات کے مطابق اپنے نصاب میں بہتری لانا ہوگی۔

ذہنی صحت

٭ سب کے لیے ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی کے لیے حکومتوں کو یقینی اور ناگزیر اقدام اٹھانے ہوں گے۔

٭ کئی معاشروں میں (بشمول ہمارا معاشرہ) ذہنی صحت کے مسائل کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس سلسلے میں حکومتوں کو مہم شروع کرنا ہوگی۔

٭ میڈیا اداروں کو ذہنی صحت سے متعلق مثبت تصور اور رویوں کو پروان چڑھانا ہوگا۔

عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا

٭ حکومتوں کو ان کمیونٹیز میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔

٭ مالیاتی اداروں کو ایسے اداروں کو سرمایہ فراہم کرنے سے انکار کرنا ہوگا جو زہریلی گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔

٭ کمپنیوں کو ایسے آپریشنز کو بند کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے عالمی زہریلی گیسوں کا اخراج سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

٭ فی الفور ’سبز بحالی پروگرام‘ کو شروع کرتے ہوئے تمام شراکت داروں کا احتساب کرنا ہوگا تاکہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک محدو د رکھا جاسکے۔

مستقبل کی ماحولیاتی، سماجی اور حکمرانی کی ذمہ داریاں

٭ اسٹیک ہولڈرز کیپٹلزم میں اسے نیکسٹ جنریشن انوائرنمنٹل، سوشل اینڈ گورننس (ESG)کہا جاتا ہے اور حکومتوں کو بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ان قوانین کو لاگو کرنا ناگزیر ہوگا۔

٭ یونیورسٹیاں ESG تعلیم کو اپنے بزنس اور ٹیکنالوجی نصاب میں شامل کریںگی۔

٭ کمپنیوں کو اپنے پراڈکٹ اور سروس ڈیزائن میں ٹیکنالوجی اخلاقیات کو شامل کرنا ہوگا۔

٭ طویل مدتی ویلیو فراہم کرنے کے لیے انکیوبیٹرز کو ابتدائی مراحل سے گزارنے والے فاؤنڈرز اور اسٹارٹ-اَپس کو ESGکی تعلیم دینا ہوگی۔

سب کو صحت کی سہولتوں تک یکساں رسائی

٭ عالمی رہنماؤں پر لازم ہے کہ وہ کووِڈ-19کے ٹیسٹ، علاج اور ویکسین تک سب کو یکساں رسائی فراہم کریں۔

٭ حکومتوں کو صحت کی خدمات فراہم کرنے والے پروفیشنلز اور ان کے خاندان کی ضروریات کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنا ہوگا۔

٭ مریضوں کی بہبود کے لیے کمپنیوں کو صحت کی خدمات میں ڈیجیٹلائزیشن کو متعارف کرانا ہوگا۔

٭ صحت کے نظام میں عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو بہتر سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔

پبلک سیفٹی

٭ کئی ممالک میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہلکاروں کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ ایسے میں تجویز ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حاصل اس Qualified Immunity کو ختم کیا جائے، جس کے باعث ملزموں پر قانونی جنگ لڑنے کا بوجھ اور اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

٭ ہتھیاروں کے ذریعے تشدد کے خلاف قوانین اور سزاؤں کو سخت بنایا جائے۔

٭ کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’کرمنل جسٹس ٹریننگ‘ پروگرام متعارف کرایا جائے اور اس میں اصلاحات لائی جائیں۔

ان اہداف کو ’ملینئل مینیفیسٹو‘ کی مدد سے کچھ اس طرح حاصل کرنے کا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے:

٭ انٹرجنریشنل ڈائیلاگ کے لیے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔

٭ بڑے اقدامات پر پیش رفت کرنے اور اسے تیز کرنے کے لیے بڑے سوالات پوچھے جائیںگے۔

٭ نظام میں تبدیلی کی کوششیں کی جائیں گی اور اجتماعی اقدامات لیے جائیں گے۔

٭ متنوع تجربات کے لیے گنجائش پیدا کی جائے گی۔

٭ غیرآرام دہ اور مشکل موضوعات پر بحث و مباحثہ کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جائے گا۔

٭ ہم اپنا، دوسروں کا، اور اپنے ماحولیاتی نظام کا خیال رکھیں گے۔