بھارتی فوجی حصار میں علی گیلانی کی تدفین

September 04, 2021

جدید تاریخِ حریت کا تاریخ ساز سنہری باب ختم ہوا۔

تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے انتھک مجاہد رہنما جبلِ عزم و عمل سید علی گیلانی بھارتی سیاسی و عسکری فسطائیت سے لڑتے بھِڑتے حوضِ کوثر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ 92سالہ کشمیری حریت رہنما تادمِ مرگ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دلانے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کا ادغام پاکستان میں کرانے کی عشروں پر محیط جدوجہد میں تادمِ مرگ ظلم و جبر سے لڑتے بھِڑتے رہے۔ ان کاجذبۂ آزادی کمال و بےمثال تھا جو لمحہ بہ لمحہ عمل میں ڈھلتا رہا۔ ان کی یہ سبق آموز جدوجہدِ آزادی نتیجہ خیز ہوا چاہتی ہے۔ سید صاحب اللہ کو تب پیارے ہوئے جب تحریکِ آزادیٔ کشمیر کامیابی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اس کا اندازہ دنیا کو ریاستی دہشت گردی کی چیمپئن بھارتی حکومت کے اس سخت خوف سے ہوا جو کشمیری بطلِ حریت علی گیلانی کے جلد انتقال کی امکانی اطلاعات پر پہلے ہی پیدا ہو چکا تھا۔ گیلانی صاحب نے اپنی آل اولاد اور تحریکی ساتھیوں کو وصیت کی ہوئی تھی کہ ان کی تدفین شہداء کے قبرستان میں کی جائے۔ سید صاحب کی بیماری اور ان کی دن بدن بگڑتی حالت کی منٹ منٹ کی خبر تو انٹیلی جینس رپورٹس میں بھارتی حکومت اور سیکورٹی اداروں کو دی جا رہی تھی۔ انہوں نے موت کی اطلاع ملتے ہی محصور مقبوضہ وادی میں فوراً محدود سی نیٹ سروس کو بھی منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ خبروں کے مطابق عظیم کشمیری رہنما کا انتقال شب ساڑھے دس بجے کے قریب ہوا۔ فوراً مقبوضہ و محصور وادی میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ سروس اور فون سگنل کا سسٹم منقطع کر دیاگیا، دیکھتے ہی دیکھتے گلی محلے کے چاروں جانب تعینات مسلح فوج گلی محلوں میں داخل ہو گئی، جو لوگ نکلے انہیں گھروں کی دہلیز پر ہی تشدد کرکے گھروں میں جانے پر مجبور کر دیا، پھر بھی کہیں کہیں مساجد سے اعلان ہوتے ہی نفری نے دھاوا بول کر پکڑ دھکڑ اور مارپیٹ کی۔ قابض بھارتی انتظامیہ اور تعینات سیکورٹی میں سید علی گیلانی کی موت اور لاش سے خوف کا یہ عالم تھا کہ پولیس اور فوج کی بھاری نفری نے انتقال کی اطلاع ملتے ہی حیدر پورہ میں سید صاحب کی رہائش گاہ کو گھیر لیا، پورا رہائشی علاقہ چھائونی میں تبدیل ہو گیا اور علاقے سے کسی اٹھنے والے طوفان کو روکنے اور میت کو اپنی تحویل میں جلد سے جلد لینے کے سیکورٹی اہداف نے اس یقین پر آخری مہرثبت کر دی کہ مقبوضہ علاقے کی آزادی کی منزل کتنی قریب آ گئی ہے۔ گھر والوں کو تدفین کے انتظام سے روکنے اور شہدا کے قبرستان میں تدفین کی اجازت دینے سے انکار پر لواحقین اور مسلح سپاہیوں میں ہاتھا پائی تک ہوئی۔ بالآخر مجبور کر دیا گیا کہ سید صاحب کی تدفین بھارتی دہشت گرد انتظامیہ کی مرضی سے ہو گی ۔ بندوقوں کے سائے میں نماز فجر سے پہلے یہ ہوا، کسی مسلح فوج و پولیس کا کسی لاش سے اس قدر خوف اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جبراً تدفین کا یہ دنیا میں پہلا واقع ہے۔

اس شرمناک اور انسانیت سوز واقعہ نے مکمل طور پر ثابت کر دیا کہ بھارتی انتظامیہ، فوج اور اس کے تربیت یافتہ افراد کا فقط طالبان کی کابل میں یقینی فتح سے ہی خوفزدہ ہو کر آناً فاناً کابل، قندھار، مزار شریف اور ہرات سے فرار ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، اس کی بزدلی اور کیپیسٹی کا یہ عالم کہ وہ 92سالہ بوڑھے کشمیری حریت پسند کی موت اور لاش سے بھی اتنی خائف ہوئی کہ اس نے یہ بھی پروا نہیں کی کہ لاش چھین کر اپنی مرضی سے اپنی منتخب جگہ پر تدفین کی خبروں سے بھارت کی انتظامی اور پیشہ ورانہ سیکورٹی اہلیت و صلاحیت کی ارتھی سید صاحب کے جنازے سے پہلے دنیا دیکھے گی، جو دیکھ لی۔

بھارت بھول گیا کہ چار سال قبل جواں سال پی ایچ ڈی اسکالر مظفر وانی کو اس (بھارت) کے خوف اور ظالمانہ مسلح آپریشنز نے کس طرح بندوق پکڑنے پر مجبور کرکے تحریک آزادی کشمیر کو کہاں سے کہاں پہنچایا۔ آزادیٔ کشمیر کے 1989سے شروع ہونے والے مرحلے میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے عزمِ صمیم اور اس پر سید علی گیلانی کی حیران کن استقامت اور مظفر وانی کے 200مجاہدین کے گروپ نے اپنی شجاعت کے تاریخی مظاہروں سے لاکھوں بھارتی فوج کے امیج کو جو برباد کیا ہے وہ عبرتناک ہے۔

دوسری جانب مظفر وانی کی شہادت اور علی گیلانی کی تاریخ ساز مزاحمت نے مقبوضہ کشمیر کے قبضے کو سنبھالتے سنبھالتے پورے بھارت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اب یہ بھارت میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے لئے وہ کچھ مہیا کریں گی جسے بزدل افواج اور ریاستی دہشت گرد فیصلہ ساز روک نہ پائیں گے۔ افغانستان میں ریاستی دہشت گردوں کے ٹولے (جسے ان کے اپنے وطن میں جتنا اور جیسے بےنقاب کیا جا رہا ہے اور جیسے اور جتنے سوالوں کی بارش ہو گئی ہے) اب مجاہدینِ آزادی کو دہشت گرد قرار دینے کا چورن نہیں بکے گا۔ مزاحمت اور مسلسل مزاحمت ، اسی سے کامیابی و فتح کی راہ نے علی گیلانی کے خواب اور مظفر وانی کی جان کی قیمت کی مقررہ ادائیگی اور تعبیر کو یقینی بنا دیا ہے۔اب مجاہدین آزادی کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار نہیں دیا جا سکے گا۔لداخ کے متنازعہ علاقوں کو بلا چون وچرا چینی علاقے سے خامشی سے تسلیم کرنے والے ہندو توا کے بھارتی سورما جو کچھ بھارت کےساتھ کر چکے اور کرنے والے ہیں۔ آٹے میں نمک برابر رہ جانے والے باہمت بھارتی سیاسی دانشور اورصحافی اپنے لئے نہیں تو اپنی نئی نسل کی خاطر ہمت بڑھائیں اور توجہ دیں، ڈومور۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)