کنٹونمنٹ الیکشن: کانٹے دار مقابلے

September 14, 2021

ملک بھر کے 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218وارڈز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی قوت تقریباً وہی ہے جو 2018ءکے انتخابات کے وقت تھی۔ ان کے ووٹ بینک میں کوئی بڑی کمی بیشی واقع نہیں ہوئی۔ نہ حکمران پارٹی کو اپنے ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کا کوئی بڑا فائدہ پہنچا نہ اپوزیشن کو حکومتی الزامات اور مقدمات کا زیادہ نقصان ہوا۔ اسی طرح حکمران پارٹی کی مقبولیت پر اپوزیشن کی مخالفانہ مہم جوئی، جلسے جلوسوں اور بیان بازی میں اسکی کمزوریاں اور ناکامیاں اچھالنے یا مہنگائی میں ہوش رُبا اضافے اور شہری سہولتوں کی عدم فراہمی کا عمومی توقعات کے مطابق کوئی منفی اثر پڑا۔ پی ٹی آئی کو اپنی ’’شاندار‘‘ کارکردگی اور نہ اپوزیشن کو حکمران جماعت کی ناکامیوں سے کچھ حاصل ہو سکا۔ اتوار کو ہونے والے کنٹونمنٹ انتخابات میں مجموعی طور پر تحریک انصاف کے 63مسلم لیگ ن کے 59جبکہ پیپلز پارٹی کے 17امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس طرح تحریک انصاف کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری، اس کے رہنما بجا طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کی پارٹی نمبر ون ہے۔ لیکن پنجاب میں، جسے فتح کرنے کے لئے تینوں بڑی پارٹیاں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں، مسلم لیگ ن 113میں سے 51نشستوں کے ساتھ پہلا نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جبکہ پی ٹی آئی برسر اقتدار ہونے کا فائدہ اُٹھانے اور تمام تر کوششوں کے باوجود دوسرا بھی نہیں، 28نشستوں کے ساتھ تیسرا نمبر حاصل کر سکی ہے۔ دوسرا نمبر حیرت انگیز طور پر کامیابی کے اعتبار سے آزاد امیدواروں کا ہے جس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ بڑی پارٹیوں پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے ووٹروں نے اپنی نمائندگی کے لئے ایسا آپشن اختیار کیا ہے جس کا کسی پارٹی سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مقابلے کانٹے دار ہوئے۔ کئی جگہوں پر ہار جیت کا فیصلہ ووٹوں کی معمولی تعداد سے ہوا۔ نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی حسب توقع خیبر پختونخوا میں بازی لے گئی۔ بلوچستان میں اس کو دوسروں سے زیادہ نشستیں ملیں، سندھ میں اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد پیپلزپارٹی کے جیتنے والے امیدواروں کے مساوی ہے جو یقیناً بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن پنجاب میں مسلم لیگ ن اس پر بازی لے گئی۔ تاہم پنجاب میں 55آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ یوں مسلم لیگ ن کا پہلا نمبر، آزاد امیدواروں کا دوسرا اور پی ٹی آئی کا تیسرا رہا۔ پیپلزپارٹی پنجاب اور بلوچستان سے کوئی نشست نہ جیت سکی جبکہ بلوچستان سے ن لیگ خالی ہاتھ آئی۔ پی ٹی آئی کے چاروں صوبوں سے امیدوار کامیاب ہوئے جس کی بنیاد پر اس کا یہ دعویٰ درست ہےکہ وہ چاروں صوبوں کی پارٹی ہے مگر وفاق اور صوبے کی حکمران پارٹی ہونے کی وجہ سے پنجاب میں اس کی ناکامی سوالیہ نشان ہے۔ اسے دیکھنا ہوگا کہ یہ ناکامی صوبائی حکومت کے کھاتے میں ڈالنی چاہئے یا پارٹی کی مجموعی پالیسیوں کے پلڑے میں۔ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج قومی انتخابات پر منطبق نہیں کئے جا سکتے مگر ووٹروں کے عمومی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ووٹ بینک کے اعتبار سے وہ کہاں کھڑی ہیں۔ انہیں اپنے اپنے منشور اور پالیسیوں کو عوامی خواہشات کا آئینہ دار بنانے کے لئے مزید سوچ بچار کرنی چاہئے اور رائے عامہ کو مثبت انداز میں اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے مزید محنت کرنی چاہئے۔ کنٹونمنٹ انتخابات مجموعی طور پر پُرامن رہے جس کا سہرا الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سر ہے۔ بعض مقامات پر دھاندلی کے الزامات بھی لگے مگر پاکستان میں کون سا الیکشن ہے جس کی شفافیت پر انگلی نہ اُٹھے۔