جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

September 15, 2021

آج اِس دنیا میں جو زندگی انسان گزار رہا ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہوئے کبھی کبھی آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز وقت ہے۔ وقت کی قدر نہ کرنے والا اپنے کیرئیر میں عروج نہیں دیکھ سکتا۔ آج کُل انسانیت اپنی یہ سب سے قیمتی متاع انتہائی بےدردی سے سوشل میڈیا پر لٹا رہی ہے۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ اگر ایک شیر خوار بچے کے سامنے ایک شخص رنگین گیسی غبارے لے کر کھڑا ہو تو جب تک وہ اپنی یہ خواہش پوری نہ کر لے، بلکتا رہے گا۔ ہماری حالت بھی اس بچّے کی سی ہے۔ آپ ذرا پانچ منٹ کے لئے بغیر انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے زندگی گزارنے کا تصور کریں۔ آپ کی کیا حالت ہو جائے گی؛ حالانکہ یہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون آپ کو دن رات نت نئی الجھنوں میں مبتلا کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں کو کس تیزی اور کس بےدردی کے ساتھ تبدیل کیا ہے؟ اِس کی مثال پیشِ خدمت ہے، آج سے پندرہ بیس سال پہلے اگر کسی لڑکی کو کوئی لڑکا یہ کہتا کہ مجھ سے دوستی کر لو تو اس کے بھائی لڑنے آجاتے۔ آج آپ پورے صوبے کی لڑکیوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیج دیں، آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ہاں یہ ہے کہ ’’دوستی‘‘ کے لفظ کی جگہ ’’فرینڈ ریکوسٹ‘‘ نے لے لی ہے۔ صورتِ حال اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے کہ اگر کوئی لڑکی یہ شکایت کرے کہ میرے پڑوسی نے مجھے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی ہے تو اُلٹا لوگ اسے ہی قدامت پسند سمجھیں گےحالانکہ ہزاروں سالہ تاریخ میں برصغیر کی ایک عظیم اکثریت کا کلچر یہ کبھی نہیں تھا۔ ایک گورا اٹھا اور پوری دنیا کو تبدیل کر دیا۔ پاکستان میں تو اب تک ایسا نہیں ہوا اور نہ ہو سکے گا لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں ہم جنس پرستی اب بری چیز نہیں ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے ہی غلط خیال کئے جاتے ہیں۔ یہ سب ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہوا۔

آج انسان جیسی نگرانی سے گزر رہا ہے، ویسی پوری انسانی تاریخ میں کبھی نہیں کی گئی۔ ہمارے پل پل پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ وہی ہماری مصروفیات کا تعین کرتے ہیں۔ ہمارا لباس، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، مصروفیات، پسند و ناپسند، خوراک، ہر چیز پر وہ قبضہ کر چکے ہیں۔ آپ جلیبیاں کھا کر اس کی تصویر لے کر اپ لوڈ کرکے ان لوگوں کو دکھاتے ہیں، جن سے آپ پوری زندگی کبھی ملے ہی نہیں اور نہ کبھی ملیں گے۔ آپ اجنبی لوگوں کو بار بار یہ دکھاتے ہیں کہ میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میوزک سنتا ہوں۔

اسمارٹ فون اُن کا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ انہوں نے اس میں یوٹیوب، ای میل، واٹس ایپ، وائبر، گوگل، کیمرہ، پلے اسٹور، گیمز، فیس بک اور ایسی رنگا رنگ ایپلی کیشنز انسٹال کی ہیں، جو جاگنے کے بعد سونے تک، انسان کا بیشتر وقت کھا جاتی ہیں۔ موبائل کے چارجر کی تار ہمارے گلے میں اس طرح ڈالی جا چکی، جیسے ایک جانور کے گلے میں رسی باندھی جاتی ہے۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جب یہ موبائل وائبریٹ کرتا ہے تو کئی بار انسان حادثات سے بال بال بچتا ہے۔ واٹس ایپ پر میسج دیکھتے ہوئے، آدمی گاڑی دے مارتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں ایک گھسا پٹا لطیفہ درج تھا۔ ہم پیدل چلتے ہوئے بھی اس سے گردن اٹھا نہیں سکتے اور کئی بار گاڑی کے نیچے آتے آتے بچتے ہیں۔

ہر کچھ دیر بعد واٹس ایپ یا وائبر پر وڈیو پیغامات بھجوائے جاتے ہیں۔ فیس بک پر وہ یہ پیغامات میرے ان باکس کے اندر چھوڑ کر جاتے ہیں۔ تجسس کی انسانی فطرت کی وجہ سے ہم انہیں کھول کر دیکھنے کے لئے مجبور ہیں۔ آپ اشارے پر رکتے ہیں تو یہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ میرا سٹیٹس کس کس نے دیکھا۔ دوسروں کی Status Picturesپر ہمیں تبصرہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ دشمن آپ کی فرصت کا ایک ایک لمحہ کھا چکا ہے۔

وہ آپ کا سارا ڈیٹا جمع کر چکے ہیں۔ آپ کے گھر کا ایڈریس ہر ایپلی کیشن استعمال کر رہی ہے۔ آپ تنہائی میں کیا کیا کرتے ہیں؟ اس کا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے۔ کئی بار یہ ڈیٹا چوری کر کے افشا کیا گیا اور بڑے بڑے لوگوں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مشہور شخص کی وڈیو ریکارڈ ہو جائے تو پوری دنیا تک پہنچ جاتی ہے جس شخص کے ہاتھ آپ کے موبائل اور لیپ ٹاپ کا پاسورڈ آجائے، وہ آپ کے پل پل سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ ثبوت آجاتے ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے ایسا کوئی ثبوت ہوتا ہی نہیں تھا۔ ایک ڈیجیٹل زندگی جنم لے چکی ہے، جو اصل زندگی سے زیادہ متحرک اور رنگین ہے۔

ہم اب کوئی بھی کام توجہ سے نہیں کر سکتے۔ آپ کام کرنے بیٹھیں تو پانچ دس منٹ بعد ہاتھ خودکار انداز میں فیس بک کھول دیتے ہیں۔ پھر آپ کو ایسا میلہ نظر آتا ہے جو نظریں ہٹانے ہی نہیں دیتا۔ بےشمار لوگ اس کی وجہ سے ٹریفک حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں کئی ڈیوائسز دے کر، انہیں آپس میں جوڑ کر، وہ ہمارے ایک ایک لمحے کے نگراں ہو چکے۔ ایک دفعہ بڑا لطیفہ ہوا۔ مجھے موبائل پر میسج ملا کہ فلاں کی سالگرہ ہے، اسے مبارک باد دو۔ جب کہ میں نے کئی سال پہلے اسے صرف ایک ای میل بھیجی تھی۔ اس کے علاوہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ موبائل اور ای میل والوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر کے مجھے اطلاعات بھیجنا شروع کیں۔ دنیا عجیب سے عجیب تر ہوتی چلی جا رہی ہے؛ حتیٰ کہ بےساختہ انسان چلّا اٹھتا ہے؛

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)