سردار عطاء اللہ مینگل

September 26, 2021

وہ ،جسے مظلوم ومحکوم اورمعاشرے کے ستائے ہوئے افراد اپنا مسیحا سمجھتے ہوں، جس کی ایک جھلک دیکھنے کوترستے ہوں، جس کی آنکھوں میں سچائی ہو ، جوجہلا سے نمٹنے کا گُر جانتا ہو، جس کی گفتگو اپنائیت، بہادری اور جرأت کاحوالہ دیتی ہو، جو حبس زدہ سیاسی ماحول کے اندھیروں میں اُمید کی کرن جیسا ہو، جس نے دنیا کے عظیم رہنمائوں کی سوانح عُمری پڑھ کر، ان کی جدّوجہد کو اپنا نصب العین بنایاہو۔ اُس عظیم شخص کو بلوچستان کے لوگ ’’عطاء اللہ مینگل ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

غربت ،افلاس اورپس ماندگی کے طویل سفر کے مسافر کو جب سستانے کا موقع نہ میسّر آئے، تواس کے لہجے میں تلخی اُتر آنا فطری سی بات ہے۔بس یہی پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے عطاء اللہ مینگل سمیت بلوچستان کی سیاسی قیادت کے لب و لہجے کی ترشی کی وجہ ،ان کےشب و روز بآسانی سمجھے جاسکتے ہیں۔ عطاءاللہ مینگل اور ان کے رفقانے ہمیشہ ہی بلوچ عوام کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی کہ یہی تو ایک عظیم لیڈر کا خاصّہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے لیے آواز اُٹھاتا ہے۔

انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ’’ بلوچستا ن سے نکلنے والی گیس پر پہلا حق بلوچ عوام کا ہے‘‘، وہ چاہتے تھے کہ بلوچوں کو ان کا حق ملے، کیوں کہ علمِ سیاسیات کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ سچّا لیڈر عوام دوست ہوتا ہےاور غاصبوں اور لٹیروں سے نجات کی راہیں ہم وار کرتا ہے۔ اسی عوام دوستی کے ’’جرم‘‘ میں انہیں غدّار کہا جاتا رہا ، لیکن وہ بھی کہہ چُکے تھے کہ ’’اگر بلوچ عوام کے حق کے لیے آواز اُٹھانا جرم ہے، تو مَیں یہ جرم بار بار کرتا رہوں گا۔‘‘ عطاء اللہ مینگل نے بارہا کہا کہ ’’اگر مجھے اقتدار عزیز ہوتا ،محلّات میں رہنے کی خواہش ہو تی، تو عوام کے لیے آواز نہ اُٹھاتا۔ سکون سے گھر میں زندگی بسر کرتا، نہ کہ جیل میں۔‘‘

بائیں سے،میر گُل خان نصیر، سردارعطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو کی ایک یادگار تصویر

انہیں کئی بار مسندِ اقتدار کی پیش کش کی گئی، جسے انہوں نے یہ کہہ کرٹھکرا دیا کہ’’ مجھے اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے، جو دینا ہے عوام کو دیں ۔انہیں مزید دھوکا دینے والوں سے نجات دلائیں۔‘‘ حالاں کہ وہ خود بھی ایک بلوچ قبیلے کے سردار تھے ،لیکن جب با قاعدہ میدانِ سیاست میں قدم رکھا تو عوامی نمایندہ بن گئے، سرداری نظام کے خاتمے کے لیے بھر پور آواز اُٹھائی۔ وہ ایک روشن خیال، ترقّی پسند سیاست دان تھے۔ اُنہیں اس بات کا بھی رنج تھاکہ بلیلی اور ہرنائی وولن ملز کو ایک سازش کے تحت بند کیا گیا اورچو تووولن مِل سمیت کئی کارخانوں کو بلوچستان میں کام نہیں کرنے دیا گیا۔

سردار عطاء اللہ مینگل 1929ء میں وڈھ تحصیل، بلوچستان میں پیدا ہوئے، مگرابتدائی تعلیم سندھ سے حاصل کی۔ 1954ء میں انہیں خان آف قلّات، میراحمد یارخان سے ملوایا گیا اور سردار بنانے کی سفارش کی گئی، تو انہیں دستاربندی اور وڈھ جانے کی اجازت مل گئی۔بعد ازاں، 1956ء میں میرغوث بخش بزنجو کی رہنمائی میں باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا اور 1962ء میں ایوب خان کے دَور میں قلّات ڈویژن سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

اپنی شعلہ بیانی سےوَن یونٹ کے خاتمے کے لیے سرگرم رہے۔ یہاں تک کہ وَن یونٹ کاخاتمہ ہوا اور مُلک میں پہلی مرتبہ عام انتخابات کے لیے راہ ہم وار ہوئی۔ یاد رہے، موجودہ اٹھارویں ترمیم کو اسی جدّوجہدکا تسلسل کہا جاتا ہےاور سچ یہی ہے کہ مُلک میں جمہوری نظام کے لیے ان کی جدّوجہد سے کوئی ذی شعورانکار نہیں کرسکتا۔

1970ء کے عام انتخابات میں جیتنے کے بعد عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے۔ وہ ایک بہترین مقرّر اور باصلاحیت منتظم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ان کی کار کردگی اورسیاسی بلوغت سے گھبرا کر مخالف سیاسی جماعتوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ عطاء اللہ مینگل پر جھوٹے الزامات عاید کیے گئے، ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا،جعلی مقدمات بنائے گئے اور بالآخر 13فروری 1973ء کو بلوچستان حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ اُس کے بعد حیدرآباد سازش کیس کی آڑ میں کالعدم نیشنل عوامی پارٹی(نیپ )کی قیادت برطرف کرکے پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔

حالاں کہ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت نے قلیل عرصے میں صوبے میں تعلیمی نظام دُرست کرنے ،محکمۂ پولیس کی کارکردگی بہتربنانے کے لیےکئی اقدامات کیے، بلوچستان یونی وَرسٹی کاقیام عمل میں لایا گیا ،بولان میڈیکل کالج کی تعمیر کا منصوبہ بنا، خضدارمیں پہلی انجینئرنگ یونی وَرسٹی قائم ہوئی،بلوچستان بورڈ کے قیام کی منظوری دی گئی ،بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوششیں تیز ترکی گئیں۔

نیز، بلوچستان کی تعمیر و ترقّی کے لیے اسمبلی میں نہ صرف قراردادیں پیش کی گئیں، بلکہ بعض منظوربھی ہوئیں۔ اس موقعے پرمخلوط حکومت کے تحت بہترین ورکنگ ریلیشن کامظاہرہ بھی کیا گیا۔ پروفیسر کرارحُسین جیسی علمی شخصیات کووائس چانسلر بلوچستان یونی وَرسٹی مقررکیا گیا۔ لیکن غالباًاُس وقت کی مرکزی حکومت کی آنکھوں میں بلوچستان کی ترقّی کھٹکنے لگی تھی کہ سازشی عناصراُن کی حکومت خاتمےکے لیے سرجوڑ کربیٹھ گئے۔

سردار عطاء اللہ مینگل ان کے خلاف بھانت بھانت کی کہانیاں گھڑی گئیں، بلوچستان حکومت کےہر عمل کو منفی اور غلط انداز میں پیش کیاگیا ۔ اور ان سازشوں کی حقیقت تب سامنے آئی، جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے کرداروں کی کہانیاں رقم ہوئیں۔ جب حیدرآباد سازش کیس کی پٹاری سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا،تو پتا چلا کہ عطاء اللہ مینگل بے قصور تھے، لیکن تب تک بلوچستان کا بہت نقصان ہو چُکا تھا۔

حالاں کہ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آیندہ مُلک کی بنیادوں کوکم زور کرنے والوں کی پالیسیز اور عزائم پرنظر رکھی جاتی، وفاق کےاپنی اکائیوں کے خلاف رویّوں کانوٹس لیاجاتا ،مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سردار اختر مینگل 1997ء کے انتخابات میں رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بحیثیت وزیرِاعلیٰ ایک مخلوط حکومت بنانے میں کام یاب ہوگئے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف جب بھی بلوچستان کے دَورے پر جاتے، تو اختر مینگل خود ڈرائیو کرکے انہیں ائیر پورٹ سے لاتے، جس پر ان پر خاصی تنقید بھی کی گئی ۔سر دار اختر مینگل نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ جو لوگ بلوچستان کی بدحالی میں طاقت وَروں کا ساتھ دے رہے ہیں یا پھر محکوم عوام کی چیخوں پربغلیں بجارہے ہیں ،وہ ایک نہ ایک دن ضرور پچھتائیں گے، اُن کی اپنی بھی چیخیں بھی نکلیں گی۔‘‘ اور وقت نے ثابت کر دکھایا کہ وہ سچ کہتے تھے۔ عطاء اللہ مینگل نے ایک بار یہ بھی کہا کہ’’ مُلکی پالیسیوں میں سنجیدگی لائی جائے ،وگرنہ سیاسی عدم بلوغت کا جن کہیں بوتل سے باہرنہ نکل آئے۔‘‘

ایک زمانہ تھا جب عطاءاللہ مینگل ،میرغوث بخش بزنجو ،نواب اکبر بگٹی، صمد خان اچکزئی سمیت تمام سیاسی زعما کوئٹہ کے جناح روڈ پر عام لوگوں کی طرح ہوٹلوں میں بیٹھے چائے پیتے، خوش گپیوں میں مصروف نظرآتے تھے، لیکن آج ایک کاؤنسلر تک دس، دس گارڈز کے ساتھ گھومتا ہے۔ سردار عطاءاللہ مینگل اوران کے رفقا کے خدشات درست تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہرشخص عدم تحفّظ کاشکار ہو جائے گا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہوتی آئی ہے۔ لیکن بقول عطاء اللہ مینگل ’’نہ تو اس مرض کی تشخیص کی جا تی ہے، نہ تدبیر۔‘‘

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا نام، بلوچ عوام کی آواز، سردار عطاء اللہ مینگل 2ستمبر 2021ء کواس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ مُلک میں جمہوری عمل کو ثمربار کرنے کے لیے ایوانوں کااحترام ہواور سیاست کو عبادت کادرجہ دینے والوں کی قدرکی جائے ۔