اقلیتوں کے تحفظ کا قانون

September 23, 2021

تحریک انصاف کی ا نسانی حقوق کی وزارت نے حال ہی میںجبری مذہب کی تبدیلی کے بارے میں ایک اہم بل کا ڈرافٹ تیار کیا ہے جس کے پاکستانی سماج پر دور رس مثبت اثرات مرتب ہو ں گے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی تحقیق کے مطابق سندھ میں ہندونوجوان لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی میں روز بروزاضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی اورجبری شادی کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں تک بھی پہنچے لیکن ان سے بھی ایسے واقعات میں کمی نہ آئی ۔کچھ رپورٹوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کچھ عرصے بعد لڑکیاں لا پتہ ہوگئیں مگر اب یہ معاملہ صرف لڑکیو ں تک نہیں رہا بلکہ کم سن لڑکوں اور لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات اخبارات اور سوشل میڈیا میں جگہ جگہ رپورٹ ہورہے ہیں جن کی بین الاقوامی میڈیا میں بھی کوریج ہو رہی ہے اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بھی اس مسئلے کو اٹھا یا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ضیا ء الحق کے دور سے ہی پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہونا شروع ہوا اور 9/11کی دہشت گردی نے اس میں شد ت پیداکردی جس سے مذہبی انتہا پسندی کی لہر میں اقلیتیں براہ راست متاثر ہوئیں ۔ ایک طرف پنجاب اور کے پی میں مسیحائی اقلیت کیلئے مشکلات کھڑی ہوئیں تو دوسری طرف ہندو برادری سندھ بھی اس کا براہ راست نشانہ بنی ۔ اس دوران مختلف منتخب حکومتیں بھی قائم ہوئیں اور ہر اسمبلی میں اقلیتی اراکین نے کم سن بچوںکی تبدیلی مذہب اور نوجوان لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی اور جبری شادی کے مسائل اٹھائے۔ اس سلسلے میں پاکستانی دانشور اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی کم سن بچوں کے مذہب کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے کیونکہ کم سن بچے ان فیصلوں کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے انکے والدین کا جو مذہب ہوتا ہے ، وہی بچوں کو اپنانا پڑتا ہے۔تبدیلی مذہب کی عمرکی حدکے بارے میں کئی نقطہ ہائے نظر ہیں جبکہ انسانی حقوق کی بین الاقومی تنظیموں نے اس مسئلے کو خصوصی اہمیت دی ہے اور یہ معاملہ یورپی یونین کے ایجنڈے میں بھی شامل ہے۔دوسری طرف یورپی یونین نےپاکستان کی کئی صنعتوں میں خاص طور پر گارمنٹس اور کاٹن کی صنعت کو خصوصی اسٹیٹس دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں پاکستان میں اقلیتوں کی جبری مذہبی تبدیلی اور کم سن بچیوں کی جبری شادی کے بارے میں قانون کے فقدان کا مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔انہی اعتراضا ت کی وجہ سے ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک جامع قانون تیارکیا ہے۔اس مجوزہ بل کے ڈرافٹ کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی فرد مذہب تبدیل نہیں کر سکتا اور اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو سیشن جج کو درخواست دے گا جو نوے دن کی نگرانی کے بعد اس بارے میں اپنا فیصلہ دے گا اور اگر یہ ثابت ہو گیا کہ زبردستی مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے تو ایسے شخص کے خلاف جس نے اس سے مذہب تبدیل کروایا ہوگا ، جبری مذہبی تبدیلی کی ایف آئی آر درج کی جائے گی جسکی سزا کئی سال کی قید اور جرمانہ ہوگی۔اس پر کچھ حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہےکہ اس قسم کی قانون سازی اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے جبکہ کئی جید علما ء اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام میں جبری مذہبی تبدیلی اور جبری شادی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ہندوستان میں مسلمان علماء اور صوفیہ کرام نے ہمیشہ رواداری ، مروت اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کا درس دیا ۔ یار رہے کہ آج بھی خواجہ نظام الدین اولیا ء کے مزار پر زیارت کرنے والو ں میں 90 فیصد سے زیادہ کی تعداد ہندو زائرین کی ہوتی ہے جبکہ نظام الدین اولیاء نے اپنی زندگی میں کسی کو مسلمان ہونے کا نہیں کہا، لوگ اُن صوفیائے باصفا کے کردار کی وجہ سے لوگ مسلمان ہوئے اور مغل بادشاہوں کا کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس میں جبری مذہبی تبدیلی کی اجازت ہو۔حتیٰ کہ بادشاہ جہانگیر نے کہا تھا کہ کسی کے مذہب تبدیل کرنے سے پہلے بادشاہ کی اجازت ضروری ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ نفرت ، قوموں کو اند ر سے بالکل کھوکھلا کر دیتی ہے جبکہ وسیع القلبی اور رواداری قوموں کی تخلیقی صلاحیتوںکو ابھارتی اور انہیں پروان چڑھاتی ہے۔ دنیا میں قومی ریاست بننے کے بعد جن سماجوں نے ترقی کی مورخین اسکی ایک اہم وجہ اس معاشرے کی بکھری ہوئی قوتوں کا ایک جگہ جمع ہونے کو قرار دیتے ہیں۔

آج پاکستان کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ محکوم اور مظلوم قوموں کے حقوق کی آبیاری کے ساتھ ساتھ اکثریت اور اقلیت کو مٹا کر ایسی پاکستانی قوم کی تشکیل کی جائے جہاں آئین کی پاسداری ہواور جمہوری اداروں اور ایسے سیکولر اداروں کو مضبوط کیا جائے جو اقلیتوںکو آئینی تحفظ فراہم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں بین الاقوامی قانون کے تقاضے ہیں کہ اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں قانون سازی نہ صرف انتہائی ضروری ہے بلکہ پاکستانی سماج کی یک جہتی اور ترقی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔گو کہ تحریک انصاف کی حکومت نے آئین کی پاسداری اور سویلین سپرمیسی کی روایات کو شدیددھچکا پہنچایا ہے لیکن اس کے باوجود آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے تمام اراکین جن کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہواور وہ جائز طور پر تحریک انصاف سے شدید نا راض بھی ہوں لیکن وہ اقلیتوں کا احساسِ محرومی دور کرنے لئے غیر جذباتی انداز میں اس جبری مذہبی تبدیلی کے بل کے ڈرافٹ پر جلد از جلد اپنی رائے دے کر اقلیتوں کو آئینی تحفظ فراہم کریںتاکہ دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک روشن خیال چہرہ پیش کیا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)