ایک سے زائد شادیاں

September 24, 2021

فرانسیسی حکومت نے فرانس کے ایک مسلمان شہری کو ’’وارننگ‘‘ دی ہے کہ وہ تعداد ازدواج پر عمل پیرا ہے اور فرانس کے قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے اس لئے اس کا پاسپورٹ ضبط کرلیا جائے گا۔ اس مسلمان شخص یس ہباج نے کہا ہے کہ وہ صرف ایک بیوی رکھتا ہے اور باقی سب اُس کی دوست ہیں۔ اگر دوست رکھنے سے فرانس کی شہریت ختم ہوسکتی ہے تو فرانس کےکئی لوگ شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔

ادھر سعودی عرب میں مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہونے کے باوجود ملک میں غیر شادی شدہ عورتوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق 30لاکھ خواتین میں سے صرف 29لاکھ دو ہزار 15 خواتین شادی شدہ جبکہ 30سال تک کی خواتین کی تعداد 18لاکھ 13ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان غیر شادی شدہ خواتین کی اکثریت مکہ اور ریاض میں ہے، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں غیر شادی شدہ عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے کے لئے سعودی نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایک سے زیادہ شادیوں کی وکالت کی ہے اور ہر مجاز سعودی مرد سے درخواست کی ہے کہ وہ چار عورتوں سے شادی کرے۔ اس گروپ نے فیس بک (Facebook) پر اس کے لئے ایک مہم شروع کردی ہے جس کا عنوان ہے ’’We Want Them Four‘‘ (ہمیں چار کی ضرورت ہے)۔ ہر چند کہ سعودی عرب میں غیر شادی شدہ عورتوں کی تعداد کا شمار نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سعودی معاشرے میں شادی مالی اعتبار سے بڑی مہنگی ہو چکی ہے۔ چانچہ فیس بک ہی عوام سے کہا گیا ہے کہ شادی کو آسان بنائیں۔

دوسری تیسری یا چوتھی شادی کا حکم، رواج یا ضرورت صرف سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں یہ ’’شوق‘‘ پایا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں زندگی ایک اور ’’خوشگوار‘‘ موقع سے دوچار ہو جائے گی۔ایک مسلم شادی بیورو کا دعویٰ ہے کہ ان کے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ارکان ہیں جن میں ہر ماہ پانچ تا دس ہزار افراد کا اضافہ ہورہا ہے جو اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ پہلےسے بہتر انتخاب کریں گے۔ عقدثانی کے بارے میں جھجک اور ہچکچاہٹ کا تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے۔طلاق شدہ افراد کا ایقان ہے کہ تلخ تجربہ کے بعد وہ دوسری بیوی کے ساتھ بہتر شادی شدہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ سماج میں بھی اب دوسری شادی یاطلاق کو بُری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، پچاس (50) سے ساٹھ سال کے افراد بھی عقدثانی کی دوڑ میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بات ذہنوں میں جگہ پاگئی ہے کہ طلاق مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ دوسری یا تیسری شادی خوشگوار زندگی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ایک مسلم ویب سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس یورپ، ایشیا، افریقہ اور USAکے پانچ سو سے زائد شہروں کے افراد کی رجسٹریشن ہے جن میں سے بیشتر دوسری یا تیسری شادی کے خواہشمند ہیں۔

دوسری شادی کے مسئلہ پر شرعی حوالے سے علماء کرام بہتر وضاحت کر سکتے ہیں۔ بہرحال اس خیال پر زور دینا شاید غلط نہ ہوگا کہ دنیا میں ہونے والی پیش رفت اور اسلام کےدرمیان کوئی تعلق ہے لیکن یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اس کو الزام دھرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں یا مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمی مزید بڑھ سکتی ہے البتہ اس بات سے بھی نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کہ ایسی عادات و روایات جو اسلام سے متصادم نہیں تھیں انہیں نہ صرف قبول کرلیا گیا بلکہ بعدازاں مقامی باشندوں نے بعض روایات کو بسا اوقات اسلام کا جز نہیں تو کم از کم اسلام کے عین مطابق ضرور قرار دے دیا اور پھر بتدریج کہنے اور سمجھنے لگے کہ یہ روایات درحقیقت اسلام کا جز ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں۔ آپ بھی سوچئے

کتنی دلکش ہے اس کی خاموشی

ساری باتیں فضول ہوں جیسے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)