لعابِ دہن: تشخیصی نامیاتی مائع

October 04, 2021

ڈاکٹر سید فراز معین

اسسٹنٹ پروفیسر، پروٹیومکس سینٹر،جامعہ کراچی

انسان کے اندر بہت سی خصوصیات کے ساتھ ساتھ جوایک صلاحیت تجس کی ہے وہ اس کو ہر وقت بے چین رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں تیز ترقی اور پیش قدمی دیکھ رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو طبی شعبے میں انسان نے اپنے آپ کو ہمیشہ سے مشغول رکھا ہے، کیوںکہ یہ شعبہ اس کی زندگی سے جڑا ہے۔ کسی بھی بیماری کی تشخیص اور دوا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مصائب زدہ جسم سے کچھ نمونے حاصل کیے جائیں۔ ان نمونوں کو عام طور سے تشخیصی تجربہ گاہ میں جانچ پڑتال سے گزاراجاتا ہے اور پھر مریض کا علاج شروع کیا جاتا ہے ۔ خون ایک ایسا نمونہ ہے جو ہر بیماری کی تشخیص میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

خون کے علاوہ دیگر مخصوصی جسمانی سیال بھی کسی خرابی یا جسمانی بد نظمی کو تشخیص کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان دیگر جسمانی سیال میں سے واحد لعاب دہن ایک ایسا نامیاتی سیال ہے جو کہ بہت حد تک خون میں موجود مختلف اجزاء اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں منہ میں موجود لعاب کو خون کے متبادل کے طور پر پر کھا جارہا ہے ۔ لعاب کے اوپر ہونے والی تحقیق اس طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہے کہ جسم میں ہونے والی تبدیلیاں باقائدہ طور پر منہ میں موجود لعاب میں جلد یا بدیر ظاہر ہوجاتی ہیں۔

منہ میں موجود لاب دراصل لحمیات (پروٹین)پانی، مختلف برق پاروں (ایون) وغیرہ کا مرکب ہوتا ہے ۔ انسانی کھوپڑی میں منہ کے اطراف لعاب بنانے والے غدود ہوتے ہیں جو کہ خون کی شریانوں سے اکثر اجزا اپنے اندر لے سکتے ہیں اور پھر لعاب کو بنا کر جب منہ کی طرف غدود کی چھوٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعے سے آگے بھیجا جارہا ہوتا ہے تو مزید اجزاء خون فراہم کرنے والی نالیوں میں سے نکل کر لعاب میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح مختلف بیماریوں کے بائیو ما رکر منہ کے لعاب میں پہنچ جاتے ہیں اور پتہ لگائے جاسکتے ہیں ۔ اس خیال کو مدِنظر رکھتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبہ پروٹیومکس سینٹر میں تحقیق جاری ہے ۔

پروٹیومکس چونکہ پروٹین یا لحمیہ سے تعلق رکھنے والا شعبہ ہے ۔اس لیے منہ کے لعاب پر جو تحقیقی منصوبے جاری ہیں ان میں بھی لعاب میں موجود پروٹین کو ہی توجہ کا مرکز رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر دانتوں میں کیڑا لگنا ایک عام بیماری ہے ۔ اب اس بیماری میں کیا منہ میں موجود لعاب کے اجزاء خاص طور پر پروٹین تبدیل ہوجاتے ہیں یا نہیں ؟ یہ پتہ لگانے کے لیے دو گروہ اس مطالعہ میں شامل کیے گئے۔ ایک گروپ صحت مند اور صاف دانتوں والے افراد کا تھا جب کہ دوسرا گروہ کے دانتوں میں کیڑا موجود تھا۔ ا ن دونوں گروپ کے افراد کے لعاب کا موازنہ کیا گیا۔

اس سلسلے میں مختلف فنی پہلو استعمال کیے گئے جو کہ پروٹیومکس سینٹر میں موجود ہیں اور روز مرہ کام میں استعمال ہوتے ہیں۔ منہ میں کیڑا لگنا دراصل بیکٹیریریاں کاکام ہوتا ہے جو کہ دانت کی اوپری سطح کو خراب کردیتے ہیں اور دانت کالا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ انفیکشن آہستہ آہستہ دانت کے اندر داخل ہوسکتا ہے اور پورے دانت کو خراب کرسکتا ہے۔ اس تقابلی مطالعہ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ لعاب کے پروٹین میں کچھ نہ کچھ تبدیلی موجود ہے ۔ مثال کے طور پر ایک خاص قسم کی اینٹی باڈی جس کو’’ آئی جی اے ‘‘کہتے ہیں۔ ان افراد کے لعاب میں زیادہ مقدار میں موجود تھیں جن کے دانت میں کیڑا لگا ہوا تھا جب کہ صحت مند افراد کے لعاب میں یہ مقدار بہت کم تھی۔

اسی طرح پروٹین یا لحمیہ کو توڑ دینے والے خامرہ یا انزائم بھی دونوں گروپ میں مختلف تھے۔ جن افراد کے دانت میں کیڑا لگا ہوا تھا ان کے لعاب میں یہ خامرے زیادہ مقدار میں تھے جب کہ صحت مند دانت والے افراد کے گروپ میں ایسا نہیں تھا۔ اس طرح سے یہ بات اس تحقیقی مطالعہ میں سامنے آئی کہ لعاب میں منہ کے اندر موجود کسی بھی تبدیلی کو عکاسی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی طرح ایک اور تحقیقی مطالعہ میں ہم نے یہ مشاہدہ کرنے کی کوشش کی کہ کیا دل کے مریضوں کے لعاب میں دل کی بیماری بتانے والا بائیو مارکر موجود ہو تا ہے یا نہیں؟ اس مطالعہ میں ساٹھ کے قریب دل کے مریضوں کا لعاب لیا گیا اور ایلائزہ (ELISA)کٹ کو استعمال کرتے ہوئے اس خاص مارکر کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ۔

یہ مارکر’’ ٹروپونن آئی‘‘ کہلاتا ہے۔ عام طور پر جب دل کا دورہ پڑتا ہے یا کسی اور خرابی کی صورت میں دل کے خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ٹروپونن آئی ان تباہ شدہ خلیوں میں سے نکل کر خون میں شامل ہو جاتا ہے ۔خون میں اس مار کر کی بڑھتی ہوئی مقدار دل کے عارضہ کی تشخیص کرتی ہے،چناں چہ ایسے مریضوں کے لعاب میں بھی اس مارکر کا موجود ہو نا قیاس کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے مطالعے کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ کیاواقعی یہ ان مریضوں کے لعاب میں موجود تھا جب مریضوں کے لعاب میں اور خون میں موجود مارکر کی مقدار کا موازنہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ خون میں مارکر کی مقدار زیادہ ہے، جب کہ لعاب میں اس کی مقدار کم تھی اس طرح کے مشاہدہ کی توقع رکھی جاسکتی ہے ،کیوںکہ دل اور خون کا براہ راست واسطہ ہے جب کہ لعاب کے غدود تک خون کے پہنچنے اور اس میں سے ٹروپونن کے نکلنے اور غدود میں داخل ہو کر لعاب کا حصہ بننے میں وقت درکار ہو تا ہے ۔ یقینا ًٹروپونن کی بڑی مقدار خون میں ہی رہے گی اور تھوڑی سی غدود کے ذریعے لعاب میں داخل ہو سکے گی۔

اہم بات یہ ہے کہ لعاب میں دل کے عارضے کے نتیجے میں تبدیلی مشاہدہ کی گئی ۔ اس مشاہدے کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ لعاب میں جسم میں موجود مختلف نظاموں کے اندر ہونے والی تبدیلی کی عکاسی کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔پروٹیومکس سینٹر میں ہونے والی یہ تحقیق بین الاقوامی سطح پر ہونے والی ایسی سیکڑوں تحقیقات کی طرح ہے ۔جہاں منہ کے سرطان سے لے کر گردوں ، جگر اور دیگر جسمانی اعضاء کی خرابیوں کو لعاب کے اندر ہونے والی تبدیلی سے منسلک ہونے کے شواہد بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ منہ میں موجود لعاب 24گھنٹوں کے دوران اپنے اجزاء کو تبدیل کر تا رہتا ہے۔

لہٰذا صبح ، دوپہر ، شام اور رات میں لعاب کے اجزاء اپنے مقدار کی حیثیت میں مختلف ہوتے ہیں ۔اس لیے لعاب کے مطالعےکے لیے نمونہ جات صبح کے وقت لیےجاتے ہیں۔ جہاں لعاب کے اندر موجود اجزاء اپنی اوسط مقدار میں موجود ہوتے ہیں ۔یہ کہنا شاید مشکل نہیں ہے کہ لعاب ایک ایسا نا میاتی مائع ہے ،جس کے ذریعے سے نہ صرف منہ بلکہ انسانی جسم کے اندر موجود مختلف اعضاء میں ہونے والی تبدیلیوں کا نشان مل سکتا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی اس نامیاتی مائع کو تشخیصی عمل میں مزید مفید بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔

اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آج کل کی اس وباء کے دور میں منہ کے لعاب کو کووڈ وائرس کی تشخیص کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ وائرس چوں کہ فلو کا وائرس ہے اور اوپری سانس کی نالی پر اثر کرتا ہے، اس لیے اس کا منہ کے لعاب میں موجود ہونا اور یہاں سے تشخیص ہونا آسان ہے۔ چوںکہ یہ ایک بہت تیزی سے پھیلنے اور لگنے والی بیماری ہے۔

اس لیے اس کی تشخیص کی کچھ ایسی کٹ بنائی گئی، جس میں مریض خود اپنے منہ سے نمونہ لے کر ٹیوب میں بند کر کے کسی بھی تشخیصی تجربہ گاہ میں بھیج دیتا ہے اور پتہ چلا لیتا ہے کہ وہ کووڈ بیماری میں مبتلا ہے یا نہیں، جس رفتار سے آج لعاب کے اوپر مختلف پہلو سے تحقیق ہورہی ہے اس سے تو یہ لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں خون کے نمونہ لینے میں دشواری کا سامنا ہوگا وہاں شاید منہ کے لعاب کا نمونہ آسانی سے لیا جاسکے گا۔ یہ مریض کے لیے ایک آسان اور بلا تکلیف عمل ہوگا جو اس کی جلد تشخیص اور صحت یابی کے لیے معاون ثابت ہوگا۔