ارسا کی اصل حیثیت بحال کی جائے

October 13, 2021

ماضی میں ایک خاص عرصے تک صوبوں میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم واپڈا کرتا تھا‘ واپڈا کی انتظامیہ جس انداز میں پانی کی تقسیم کرتی تھی اس سے تینوں چھوٹے صوبوں کو شکایات تھیں۔ پنجاب کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر پانی کی تقسیم کی جاتی تھی جبکہ باقی تین صوبوں کے حصے میں جو پانی آتا تھا وہ ان کی ضرورتوں سے کافی کم ہوتا تھا، سب سے زیادہ شکایت سندھ کو ہوتی تھی کیونکہ ایک تو سندھ پنجاب کے بعد ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور دریائے سندھ کا Tail End صوبہ بھی ہے جبکہ دریائے سندھ سب سے زیادہ سندھ میں ہی بہتا ہے۔ ساری دنیا میں کسی بھی دریا کے پانی کی تقسیم اس طرح کی جاتی رہی ہے کہ پانی کا سب سے زیادہ حصہ اس دریا کے Tail End ملک اور صوبے کو فراہم کیا جاتا ہے مگر یہاں واپڈا جو کرتا رہا وہ اس کے برعکس تھا۔ ماضی میں منگلاڈیم بنایا گیا حالانکہ جس دریا پر یہ ڈیم بنایا گیا اس کا پانی بھی پنجاب سے بہتا ہوا دریائے سندھ میں آکر ملتا تھا جو خودبخود سندھ کو فراہم ہوتا تھا مگر جب منگلاڈیم بنایا گیا تو اس سے سندھ کی طرف پانی کا بہائو رک گیا۔ اس قسم کے فیصلے کے خلاف سندھ مسلسل احتجاج کرتا رہا اور اب بھی شکایت کرتا رہتا ہے مگر سندھ کی ایک بھی نہیں سنی گئی اور سندھ اس پانی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔ یہ سارا کارنامہ واپڈا کی انتظامیہ کا تھا۔اس کے علاوہ پاکستان بننے کے بعد صوبہ پنجاب اور ہندوستان کے صوبہ پنجاب کی قیادت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اس کے مطابق پاکستانی پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے تین دریا ہندوستانی پنجاب کو فروخت کردیے گئے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی پنجاب اور ہندوستانی پنجاب کی قیادت کے درمیان جو مذاکرات ہوئے، باقی تین صوبوں کی قیادت کوان کا حصہ نہیں بنایا گیا اور تو اور اس قسم کے مذاکرات پر پاکستان کی مرکزی حکومت نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سندھ کے ساتھ فقط یہ زیادتی نہیں کی گئی بلکہ واپڈا کی انتظامیہ نے یہ بھی مہربانی کی کہ پنجاب کو دریائے سندھ سے ’’لنک کینال‘‘ کے نام پر دو لنک یعنی سی جے لنک (چشمہ جھل لنک) اور ٹی پی لنک(تونسہ پنجند) کینال کے طور پر نکال کر دریا کے پانی سے پنجاب کو آباد کیا گیا۔ سندھ اعتراض کرتا رہا اور اب تک اعتراض کررہا ہے کہ یہ کینالز ہیں، لنکس نہیں۔

سندھ کا موقف ہے کہ یہ لنک کینالز ’’فلڈ کینالز‘‘ ہیں ان کو پنجاب مستقل طور پر استعمال کرکے پانی حاصل نہیں کرسکتا۔ بہرحال جب 90ء کی دہائی شروع ہوتے ہی پانی کی تقسیم کا ایشو الجھنے لگا تو مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان پانی کا معاہدہ کرنے کے سلسلے میں مذاکرات شروع ہوئے، 1991 ء میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق۔جام صادق نے، سندھ کے آبپاشی کے کچھ ماہرین جن میں خاص طور پر اس وقت سندھ کا ایک ممتاز آبپاشی ماہر پی کے شاہانی شامل تھے، ان سے اس سلسلے میں مشورے کئے، شاہانی نے کچھ تجاویز پر مشتمل ایک ڈاکیومنٹ تیار کرکے سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے حوالے کیا۔

جس میں یہ تجویز کیا گیا کہ چاروں صوبوں کے درمیان پانی کا معاہدہ کیا جائے اور اس سلسلے میں پانی کی تقسیم واپڈا سے کرانے کے بجائے ایک الگ ادارہ بنایا جائے۔ سندھ کی طرف سے مرکزی حکومت کو یہ بھی تجویز دی گئی کہ ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) کے نام سے ایک نیا ادارہ بنایا جائے جس میں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو۔ یہ تجاویز سندھ کے وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے کیں۔ بعدازاں ان تجاویز پر مرکز اور صوبوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخر میں ان ساری تجاویز کو تسلیم کرکے ارسا کے نام سے ایک نیا ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا البتہ ان تجاویز میں سے ایک تجویز کو پنجاب نے تسلیم نہیں کیاکہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر سندھ کے شہر سکھر میں قائم کیا جائے جو دریائے سندھ پر واقع ہے۔ پنجاب کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے سلسلے میں دونوں حکومتوں کے درمیان رابطہ رہے گا اور بات چیت ہوتی رہے گی لہٰذا ارسا کا ہیڈ کوارٹر سکھر کے بجائے لاہور میں ہونا چاہئے۔ بعد میں سندھ نے بھی پنجاب کی اس تجویز سے اختلاف نہیں کیا۔ اس طرح اس بات پر سارے صوبوں اور مرکز کے درمیان اتفاق ہوگیا کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہوگا۔ ارسا کے وجود میں آنے کے بعد اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں کام کرتا رہا البتہ جب پاکستان کے سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے تو ان کی ہدایات کے تحت ارسا کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعد میں ایک ایک کرکے ارسا کی مختلف شقوں کو مرکزی حکومت تبدیل کرتی رہی۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)