سابق جنرل کی ایک درست بات!

October 14, 2021

’’دسمبر1950میں مجھے ترقی دے کر میجرجنرل بنادیا گیا،جنرل ایوب خان اُس وقت ڈپٹی کمانڈر انچیف تھےاور چند دنوں بعد ان کا تقرربطور کمانڈرانچیف ہونے والا تھا،مجھے کامل یقین تھا کہ کشمیر کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونکی جائے گی‘‘، یہ خیالات سابق میجرجنرل اکبرخان کے ہیں جو ان کی تصنیف Raiders in Kashmirمیں مرقوم ہیں۔ آپ جانتے ہیںکہ سابق جنرل اکبرخان مشہورِ زمانہ راولپنڈی سازش کیس کے مرکزی ملزم تھے، اس مقدمے کے 15ملزمان میں گیارہ فوجی افسر اور فیض احمد فیض،سیدسجاد ظہیر،محمد حسین عطا اور بیگم نسیم اکبر خان سویلین تھے،ان سب کو سزاہوئی،وعدہ معاف گواہوں کو چھوڑکر باقی تمام فوجی افسروں کو ملازمت سے برطرفی سمیت سزا بھی ہوئی،الزام یہ تھاکہ یہ حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے تھےجبکہ ملزمان کاکہنا تھاکہ یہ اکبرخان کی تجویز تھی جسے رَد کردیا گیاتھا۔ہم اس وقت اس مقدمے کے کسی پہلوپر بات کرنے کی بجائے صرف آپ کے سامنے یہ نکتہ رکھنا چاہتے ہیں کہ سزایافتہ جنرل صاحب یہ سمجھتے تھے کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنا چاہتی ہے اوریہ چونکہ امریکانواز ہے، لہٰذاکیوں نہ امریکا نواز حکومت کا خاتمہ کرکے عوامی اُمنگوں کے مطابق ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جو عوامی امنگوںہی کے مطابق کشمیر پر دوٹوک پالیسی اپنائے، تاہم جنرل صاحب کی اس تجویز کو یہ کہہ کر ردکردیا گیا تھاکہ ہم کوئی غیر آئینی راستہ نہیںاپنائیںگے۔جنرل صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بعدازاں جنرل ایوبخان نے جس طرح آئین کو پامال کیا، ہماراراستہ اس سے قطعی مختلف تھا جس کے تحت فوری طور پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کا انعقادہوتا۔خیر ہم یہاںکہنا یہ چاہتے ہیں کہ سابق جنرل اکبرخان کے ارادے نیک تھے یا نہیںلیکن تاریخ یہ ہےکہ امریکا کی پالیسی یہ تھی کہ اس مسئلے کو مزید لٹکایا جائے تاکہ خطے کےدو اہم ممالک پاکستان اور بھارت باہم اُلجھ کر ترقی و خودمختاری کی وہ معراج حاصل نہ کرلیںجس کے سبب امریکا کیلئے یہ خطہ ممنوعہ علاقہ قرارپائے۔امرواقعہ یہ ہے فرنگی نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس کی وحدت ختم کرنے کی خاطر اس نے تقریباً چھ سو ریاستیں قائم کیں، جہاں راجائوں، مہاراجائوں، نوابوں اور شہزادوں کی حکومتیں تھیں۔برطانیہ نے جب ہندوستان سے واپس جانے کا فیصلہ کیا تو ریاستوں کے الحاق سے متعلق تین جون 1947 کا اعلان غیر واضح تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ ’’وہ اقتدار اعلیٰ جو ریاستوں نے حکومت برطانیہ کو اپنی رضا سے منتقل کیا تھا، اب یہ اقتدار اعلیٰ حکومت برطانیہ سے واپس ریاستوں کو منتقل ہو جائے گا۔‘‘ ریاستوں کے والیوں اور عوام کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ریاستیں کس طرح الحاق کریں گی؟ کانگریس کی پالیسی یہ تھی کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام کریں جبکہ مسلم لیگ یہ اختیار ریاستی حکمران کو دینے کی خواہاں تھی۔ خیر انتہائی کم عرصے میں سردارولبھ بھائی پٹیل(ریاستی امور کے وزیر) اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے گٹھ جوڑ سے تین کے ماسوا تمام ریاستوں نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ یہ تین ریاستیں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، اور کشمیر تھیں۔ مشکل امر یہ تھا کہ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے نواب اگرچہ مسلمان تھے لیکن آبادی ہندو تھی جبکہ کشمیر کا حکمران اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ تھا مگر غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ مہاراجہ بھارت کے ساتھ یوں نہیں جاسکتے تھے کہ انہیں پتہ تھا کہ ایسی صورت میں حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، اس کے علاوہ یہ وجہ بھی تھی کہ مہاراجہ کانگریس مخالف تھا، یہاں تک کہ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کیخلاف جون 1946میں جب نہرو نے کشمیر جانے کی کوشش کی تو اُنہیں کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ تاہم دوسری طرف مہاراجہ کو نوزائیدہ مسلمان مملکت میں بھی تحفظ کا یقین نہیں تھا، اس لئے وہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا تاکہ کشمیر کو خود مختار حیثیت دی جائے۔مختصریہ کہ جب قبائل کشمیر میں داخل ہوئے تو 27 اکتوبر1947 کو بھارت نے بھی اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں، یہی نہیں کہ عارضی الحاق کے نام پر جو قبضہ کر لیا گیا تھا وہ آج تک برقرار ہے بلکہ اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ لےجانے والا بھارت اس کو مسئلے کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہوگیاہے،دوسری طرف ن لیگ سمیت پوری اپوزیشن کا کہنا یہ ہے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے کشمیر بھارت کو بیچ دیاہے۔بعض حلقوں کا کہناکہ بھارتی حکومت کی جانب سےکشمیرکی خودمختاری ختم کرنے کے بعداُس جہاد کی ضرورت تھی جس کیلئے مذہبی عناصر طویل عرصے سے سرگرم تھے،لیکن ایسے عناصر سمیت اب سب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ درست جو بھی ہولیکن سوال یہ ہے کہ جو بات سابق میجرجنرل اکبرخان نے 1951میںکہی تھی،کشمیرکا مسئلہ حل کرنے کی بجائے اسے لٹکائے رکھنے کی، کیا آج وہ بات درست ثابت نہیں ہورہی؟