• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مملکت خداداد کے خلاف آلہ کار بننے والوں کو منہ کی کھانی ہوگی(ان شاء اللہ)۔ اسلامی جمہوریہ تاریخ کے نازک موڑ پر ضرور، مقدر سیدھا ہورہا ہے۔ اچھے دن نصیب بننے کو ہیں۔ حرماں نصیبی! قائدین کے کردار اور کرتوت چارسومایوسی کا سماں ضرورپیداکر رہے ہیں۔ 30 اکتوبر کو اسلام آباد کی تالابندی کا اعلان، کیا عمران خان کو قانون، آئینی اداروں، انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں؟ بظاہر مطمع نظرلاقانونیت، افراتفری، تصادم اور خانہ جنگی معلوم ہوتا ہے۔ ناکامی، نامرادی رسوائی نوشتہ دیوار ہی سمجھیں۔ بے حسی،مفاد پرستی، مطلب برآری، خودغرضی رواج بن چکاہے۔ کیا ہمارے قائدین اپنی ناکامیوں، ہزیمتوں، ذلتوں، رسوائیوں سے سبق سیکھیں گے؟ وطنی صورت احوال فیصلہ کن رنگ اختیار کرنے کو ہے۔ قائدین ہی نے تو خوبصورت رنگ بھرنے تھے۔ کیا بہتر صورت گری ہو پائے گی؟ وائے نصیب! قائدین سے امید، بندھنے سے پہلے ٹوٹ جاتی ہے۔ ترجیحات کا تعین ہی کر لیتے۔ کیسے، کون کرتا؟ وطنی ترجیحات پر قوم کا اعتماد، فوج کے علاوہ کسی پرہے ہی نہیں۔ باکردار، لائق، بے لوث، پرخلوص، دانش مند دماغ والی سیاسی رہنمائوں کی غیر موجودگی میں بھلا کیسے ممکن تھا؟ وطنی قائدین کے اجزائے تناسبہ ایسی صفات سے یکسر محروم ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک نظریہ کی کوکھ سے جنم لیا۔ عظیم قائد کی قیادت میںامت مسلمہ یک جاں ہوئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی آخری دہائی کی سیاست، اللہ کی رسی ہی کو تومضبوطی سے تھاما۔ آزادی، تحفہ خداوندی ہی جانیں۔ آج سیاسی جماعتیں، نظریہ اور سیاسی فلسفہ سے بانجھ ہیں۔ عظیم فلسفی نے دو قومیتی فلسفہ سیاست دیا۔ قوم کی حیات اسی فلسفہ میںپنہاں تھی۔ 1938میں عظیم قائد کو لکھے گئے خطوط میںحکیم الامت نے یہی کچھ اجاگر کیا۔’’ اسلام مقصد حیات بنے گا تو امت مسلمہ آپ کی قیادت میںیکسو ہوگی‘‘۔ دوقومیتی نظریہ ہی پر تو ایک نئی قوم نے جنم لیا۔ عظیم قائد نے آنے والے دنوں میںحکیم الامت کے دئیے دو قومی نظریہ یا فلسفہ مسلم قومیت کو نظریاتی سیاست کا محور بنایا۔ نظریاتی چراغ کو ایسے روشن رکھاکہ آخری سانس تک ٹمٹمانے نہ دیا۔
آج کی سیاست ،موجودہ قائدین اور سیاسی پارٹیوں کا، تحریک پاکستان کی سیاست، بانیان ِ پاکستان اور بانی جماعت سے رتی برابرموازنہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ نظریاتی طور بانجھ، بے ڈھنگ، نالائق، کرپٹ، دوغلے، منافق، جھوٹے، مفاد پرست آج وطن عزیز کی سیاست میں کمین گاہ، پناہ گاہ ڈھونڈ چکے ہیں۔ نظریہ، کردار، عقل ودانش کی عدم موجودگی میں الزام تراشی، تضحیک، حسد، لالچ اقتدار کی چھینا جھپٹی یک طرفہ تماشا ہے۔ زیادہ افسوس حکمران جماعت پر، بانی جماعت ہتھیا کراسے نظریہ سے محروم کردیا۔
آج نظریاتی مملکت کا ایک قوم سے محروم رہنا، اچھنبے کی بات نہیں۔ موجودہ بے ترتیب مجموعہ افراد، تقسیم درتقسیم ہیں۔ تفرقہ بازی، باہمی دوریاں، انتشار، خلفشارنے غلط ملط کر رکھا ہے۔ خوف، وسوسے، افراتفری، غیر معتدل حالت زار ہرپاکستانی گھر کی زینت ہے۔ اللہ کی ناراضی ہی سمجھیں۔
اندرونی، بیرونی سازشوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اقبال اوربنائو مقدر ضرور،گراوٹ اور بگاڑ کی قوتیں ہار ماننے کو تیار نہیں۔ سیاستدان شعوری، لاشعوری طور آلہ کار بن چکے۔ کالا باغ ڈیم جیسے قومی منصوبے قومی رہنمائوں کی چال بازیوں کی نذرہوتے، قوم دیکھ چکی۔ کیا موجودہ سیاسی تنائو تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کے راہ میں بذریعہ باہمی تصادم ، افراط وتفریط ، انتشار، خلفشار روڑے اٹکانے کی سعی لاحاصل ہے۔ دشمن کا راسخ خیال کہ دونوں ایشوز صرف انارکی، افراتفری ہی آنکھ اوجھل ہو سکتے ہیں۔ کئی سالوں سے لکھ رہا ہوں کہ بھارتی امریکہ منصوبہ ساز، وطن عزیز میں خانہ جنگی، انارکی، افراتفری کا اہتمام کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ساری سیاسی جماعتیں بظاہر ان ایشوز پردل وجان سے فریفتہ ، عملاً ملک کے اندر افراتفری، تفرقہ، تصادم کی تگ ودو میں دشمن کی آلہ کار بن چکیں۔ عمران خان کا حکومت گرانا، انارکی اور شورش برپاکرنے میں مستعد ی، دیدنی ہے ۔ 2014کا دھرنا بھی یہی کچھ تھا۔ جلائو، گھیرائو سول نافرمانی،ہنڈی، بجلی کے بل نہ دینا، وزیراعظم کااستعفیٰ سب کچھ بظاہر نادیدہ قوتوں کو خوش کرنا ،اصلاً اندرون خانہ دشمن کا ایجنڈا روبہ عمل تھا۔کامیابی کیا ملی، چینی صدر کا دورہ ملتوی کرا کرہی دم لیا۔
30 ستمبر مارچ،قسط 2 سمجھیں۔ وزیراعظم کے گھر کو گھیرا۔ کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے تاکہ اپنے مسکین رفیقوں میں جھوٹ اور منافقت بیچی جا سکے۔ مکانات میں گھری چارلین رائے ونڈ روڈ پر پورے پاکستان سے لائے گئے لوگوں کی تعداد مطمئن نہ کر سکی۔ پچھلی دفعہ لکھ دیا تھاکہ چیئرمین اندر سے مطمئن نہیں۔ عمران خان 30 اکتوبر اور 25 دسمبر2011 کے جلسے دیکھ چکے تھے۔ وسیع وعریض میدانوں میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھلا کیسے بھولے گا۔ دھرنا 2014سے لیکر 30ستمبر تک کے معاملات ، عمران خان کے ہوش اڑا چکے، ٹھکانے لگ چکے۔ فریسٹریشن میں ملک دائو پر لگانے کو۔ 30 اکتوبرکے لیے پشیمانی بنتی ہے۔ آج جب شیخ رشید اور جہانگیر ترین، عمران خان کا پیغام (رشتہ) لے کر (بمطابق لندن پلان2) انگلستان پہنچے ۔ جواب تو ملنا تھا، بونس میں قادری کا زناٹے دار تھپڑ بھی وصول کیا۔ ’’رشتہ کا جواب نہیں دیا۔ قادری صاحب! پھر ناں ہی سمجھیں‘‘۔ 2014 کے لندن پلان اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں کی روداد ، جناب طاہر القادری نے مجھے خود دلجمعی سے سنائی، ’’دونوں ملاقاتوں نے سخت مایوس کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں پرلے درجے کے جھوٹے، فراڈ اور دغا بازنکلے ‘‘۔ یاد رہے، عمران خان ان ملاقاتوں سے ایک عرصہ انکاری رہے۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم کی بلائی تمام پارٹیوں کی کانفرنس میں سب کی شمولیت جو خوشی دے گئی۔ اگلے دن عمران خان نے کشمیر پر بلائے گئے پارلیمان کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے پانی پھیر دیا۔ بائیکاٹ کرنے کے جتنے عذر، بہانے تراشے گئے، بدتر ازگناہ۔ پہلے دن میڈیا پرانصافی رہنمائوں کی زبانیں ہکلاتی رہیں، جواب ہوتا تودیتے۔ اگلے دن اسمبلی فلور پر PPP اور ن لیگ کی تو تکرار کو اپنے فیصلے کی توثیق قرار دیا۔
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میںاقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
کاش ! عمران دو کاموں کو اپناشعار بنا لیتے۔ یو ٹرن لینا بند کریں۔ مزید گریبان کے دو بٹن کھلے رکھتے کہ جھانکنے، منہ چھپانے کی سہولت بوقت ضرورت بدرجہ اتم موجود رہتی۔ حسد اور نفرت کی حدت وشدت ملاحظہ، بلاول زرداری کانواز شریف کومسکرا کر ملنا، ناقابل معافی جانا۔ مک مکا اور منافقت سے تشبیہ دے ڈالی۔ بلاو ل کی مسکراہٹ پر سیخ پا ہونے والاعمران خان یہ بھول گیا کہ 12 مارچ 2014(کل ہی کی بات)کو اپنے گھر نواز شریف کا استقبال کرتے نوازشریف کے آگے سرجھکا کر بغل گیر ہوئے ۔ اگلے دن کے اخبارات، بغلگیر قائدین کی تصویر بمع اضافی کھلی باچھوں پچھلے دن کا افسانہ بیاں کر گئیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو مایوس کیا۔ باچھیں کھلنے کی بات چل ہی پڑی تو جنرل راحیل شریف سے ملاقات پر، وقت ِروانگی کھلیں باچھیں ذہنی استعداد اورذوق شوق کی الگ سے تاریخ رقم ہوئی۔ چند مہینے پہلے عمران خان، پیپلز پارٹی کے ہم رکاب،چشم تصور میں بلاول کو 30ستمبر اور بعدازاں 30 اکتوبر اپنے کنٹینرز پر دیکھ رہے تھے۔
عمران خان،بے شک 30اکتوبر آپ کے تمام ناکام کارناموں میں سرفہرست رہے گا۔ آپ کی شان میں مفاداتی میڈیا کے بجنے والے ڈھول کا اندرونی کھوکھلا پن، ایسے میڈیا کا اپنا منہ چڑھائے گا۔ 30اکتوبر،پیالی کے طوفان سے زیادہ کچھ نہیں۔ خودفریبی اور خودنمائی جناب کو بہت نقصان پہنچا چکی۔ جناب کی نالائقی، خودغرضی کہ2011 کے اواخر میں، اٹھنے والا حقی سچی سونامی آج گم گشتہ ، عالم مایوسی میں گہرے سمندروں میں واپس جا چکا۔ نہ الیکشن دھاندلی کے الزام کو طول وعرض میں پذیرائی ملی اور نہ ہی اب پاناما لیکس عوام الناس کی توجہ بن پائے گا۔ خالی پانی میں مدھانی چلالیں، جھاگ نہیں بنے گی۔ اہم واقعات کی موجودگی میں ملکی صورت متحمل ہو ہی نہیں سکتی ۔ لوگ گھروں سے نکلنے کوبالکل تیار نہیں۔ اگر مقصد سپریم کورٹ اور اداروںپر دبائو کا بلف تھا تو وہ بھی پورا نہیں ہونے لگا۔ کیا 2014کے الیکشن دھاندلی کی تحقیق کرنے والا جوڈیشل کمیشن دبائو میںآیا۔ اس کی Findings اور فیصلے آج بھی آپ کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ اقتصادی راہداری رکے گی اور نہ ہی تحریک آزادی کشمیر پر آنچ آئے گی۔انتظار فرمائیں، 30اکتوبر کو، دھوتی آپ ہی کی گم ہو گی۔ عمران خان! خوش فہمی اور خود فریبی سے باہرنکلیں۔ تحریک انصاف نے آپ سے کوئی دشمنی نہیں لی۔ بلاشبہ تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین اپوزیشن جماعت ہے، جناب اسکا ’’مکو‘‘ٹھپنے پر کیوں مصر ہیں؟



.
تازہ ترین