• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس: وزیراعظم نااہل نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کا فیصلہ

Panama Leaks Pm Not Disqualified Sc Orders Jit To Probe Money Trail
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دو کے مقابلے میں تین ججز کے اکثریتی فیصلے کے تحت وزیراعظم کو فی الحال نااہل قرار نہیں دیا ہے۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل دو سینئر ترین ججز جسٹس گلزار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہا۔

پاناما کیس کے 549 صفحات پر مبنی فیصلے میں فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔

فیصلے میں 7روز کے اندر ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جو کہ 60روز کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کی پابند ہو گی اور ہر دو ہفتے بعد سپریم کورٹ کے ایک 3رکنی بنچ کو اپنی پیش رفت سے آگا ہ کرے گی۔

عدالت نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی میں نیب، وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے)، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، اسٹیٹ بینک، آئی ایس آئی اور ایم آئی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہو گا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ طلب کرنے پر وزیراعظم اور ان کے بیٹے جسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔

جسٹس کھوسہ نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) اپنا کام کرنے میں ناکام رہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے23فروری کو اس کیس پر اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اس سے قبل مختلف سیاسی رہنما باری باری سپریم پہنچنے، کورٹ کے باہر میڈیا، سیکیورٹی اسٹاف اور سیاسی کارکنوں کا رش رہا۔

پاناما کیس کا فیصلہ سننے کیلئے آنے والوں سے کمرۂ عدالت بھر ہوا تھا، کمرے میں تل دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی، صرف ڈپٹی رجسٹرار کے دستخط شدہ پاس رکھنے والوں کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔

کمرۂ عدالت میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنما موجود تھے جن میں مریم اورنگزیب، مصدق ملک، عابد شیر علی، دانیال عزیز، طارق فضل چوہدری، طلال چوہدری، شیریں مزاری، عارف علوی، نعیم الحق اور فواد چوہدری شامل ہیں۔

جب بھی کوئی کارکن عدالت پہنچتا اس کے پارٹی کارکن نعرے لگانا شروع کردیتے۔

سپریم کورٹ کے داخلی راستے پر رش کے باعث عمران خان کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کیلئے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران خان کی سپریم کورٹ آمد پر صحافیوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ جو ہوگا انشاء اللہ بہتر ہوگا اور ملک کے مفاد میں ہوگا۔

پاناما کیس کی سماعت کے دوران 35سماعتوں میں 25ہزار دستاویزات پیش کی گئیں، پاناما لیکس میں آف شور کمپنیوں کے انکشاف پرعمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق نے نواز شریف، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کی نا اہلی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

پاناما کیس کے فیصلے کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئےتھے،کیس کے حوالے سے عدالت میں 25 ہزار دستاویزات داخل کی گئیں، سپریم کورٹ نے 26 سماعتوں کے بعد 23 فروری 2017ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، تقریباً 55 دن کے طویل انتظار کے بعد آج یہ فیصلہ سنایا گیا۔

تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی درخواست میں 7 استدعائیں کی گئیںجن میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کو قومی اسمبلی سے نا اہل قرار دیا جائے۔

عمران خان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی گئی دولت سے برٹش ورجن آئی لینڈ اور دیگر جگہوں پر بنائی گئی کمپنیوں اور جائیدادوں کی رقم پاکستان لانے کا حکم دیا جائے،چیئرمین نیب کو حکم دیا جائے کہ گزشتہ 15 سال سے زیر التواء میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات مکمل کی جائیں۔

انہوں نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ سیکریٹری داخلہ کو نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا جائے،بیرون ملک جائیدادوں کی رقم واپس لانے کے لیے سیکریٹری قانون اور چیئر مین نیب کو کارروائی کا حکم دیا جائے،چیئر مین ایف بی آر کو شریف خاندان کے ٹیکس گوشواروں اور اثاثوں کی تحقیقات کا حکم دیا جائے ، عدالت جو بھی مناسب سمجھے حکم جاری کرے،وزیر اعظم آرٹیکل62اور63 پر پورا نہیں اترتے ،وہ صادق اور امین نہیں رہے ، انہیں نا اہل قرار دیا جائے ،وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ، انہیں نا اہل قرار دیا جائے ۔

پاناما کیس کے فیصلے کے موقع پر شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کی بلڈنگ کے اطراف سخت سیکورٹی کےاقدامات کئے گئے تھے، سپریم کورٹ کے اطراف ایک ہزار پولیس، رینجرز اور سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے جبکہ قریبی چوراہوں اور اہم عمارتوں کے ارد گرد بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔

سپریم کورٹ کا رخ صرف وہی افراد کرسکے جنہیں پاسز جاری کیے گئے، پولیس نے پاسز کی تصدیق شناختی کارڈز سے کی، سیاسی کارکنوں کا ریڈزون میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا، کسی بھی غیر متعلقہ شخص کا ریڈزون میں داخلہ بند کردیا گیا جبکہ وی آئی پیز کے گارڈز کو بھی اسلحہ لانے کی اجازت نہ تھی۔

ایس پی سیکیورٹی سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے پاناما کیس کے فیصلے کے لیے آنے والوں کی فہرست طلب کی تھی جبکہ پولیس نے سرکاری ملازمین کو بھی آفیشل کارڈز ہمراہ لانے کی ہدایت کی تھی، میڈیا کے نمائندوں کو بھی خصوصی پاسز جاری کیےگئے تھے۔
تازہ ترین