• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہانگیر ترین نااہلی کیس میں سپریم کورٹ کے سوالات

Supreme Court Ask 13 Question In Jahangir Tareens Disqualification Case

جہانگیر ترین نااہلی کیس میں سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے سوال کیا کہ جائیداد ایک ہے، ادائیگیاں تین کی گئیں، جائیداد کب خریدی؟ کتنی رقم ٹرسٹ کو دی گئی؟ خریدنے والے کو کتنے پیسے دیے گئے؟ مورگیج کے لیے کتنی رقم دی؟

عدالت نے پوچھا کہ آپ نے ٹرسٹ بنایا، آپ کے پاس تو ٹرسٹ ڈیڈ ہونی چاہیے؟ اگر آپ کے پاس نہیں ہے تو بچوں کے پاس ہونی چاہیے، ان سوالوں کے جواب آپ کو دینے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ بچوں کے تحائف کی رقم وصولی کےعرصے کے ٹیکس ریٹرن بھی دیں، دس روز میں آف شور کمپنی کی دستاویزات اور بچوں کے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی بھی ہدایت کی گئی۔

حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ معمولی نہیں ، جہانگیرترین کے مالی اورباورچی سات کروڑ روپے مالیت کے شیئرز رکھتے ہیں۔

جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست پرسپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس عمر عطا بندیال نےحنیف عباسی کے وکیل سے استفسارکیا کہ آپ نے آف شور کمپنی سے متعلق ہمیں کچھ نہیں دیا، اگر آپ کے پاس اتنا مواد نہیں ہے تو آپ نے یہ معاملہ کیوں اٹھایا؟

حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ پاناما کیس میں بھی یہی حقائق تھے، جسٹس عمر نے کہا اس کیس کے حقائق مختلف تھے، اس کیس میں وزیراعظم کی پارلیمنٹ تقریراور قوم سے خطاب کا معاملہ تھا،کچھ تسلیم شدہ چیزیں تھیں جو اس کیس میں موجود نہیں ہیں۔

عاضد نفیس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے 545ملین روپے کی زرعی آمدن ایف بی آر کے سامنے ظاہر کی،جبکہ الیکشن کمیشن کے سامنے زرعی آمدن 120ملین روپے ظاہر کی گئی،2010میں فرق 425ملین کا ہے، جان بوجھ کر الیکشن کمیشن کو غلط بتایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہااگر انکم ٹیکس کم دیا گیا تو جہانگیر ترین جانے یا انکم ٹیکس والے جانیں، ہمارے پاس یہ معاملہ نہیں ہے، ہمارے پاس معاملہ صادق اور امین ہونے کا ہے۔

اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ معمولی نہیں، جہانگیرترین کے مالی اورباورچی 7 کروڑ روپے مالیت کے شیئرز رکھتے ہیں۔

جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل میں کہاکہ انہوں نے اپنی دستاویزات میں بینک اسٹیٹمنٹس ، ٹیکس ریٹرنز اور متعلقہ ریکارڈ فائل کیا ہے، ریکارڈ سے پتا چلے گا کہ قانونی ذرائع سے رقم کی کس طرح ترسیل کی، جہانگیر ترین کے بچوں کی آف شور کمپنی کا نام شائنی ویو لمیٹڈ ہے جو 2011میں بنائی گئی،

آف شور کمپنی کا ایک شیئر ہے جو کہ ای ایف جی نامی کمپنی کے پاس ہے، یہی ٹرسٹی بھی ہے، ٹرسٹ کا نام "دی رینڈم" ہے جو جہانگیر ترین نے بنایاہے، اس کمپنی کا ایک رہائشی اثاثہ ہے، یہ پراپرٹی مورگیج کے ذریعے حاصل کی گئی،قانونی مالک کمپنی اور بینیفیشل اونر جہانگیر ترین کے بچے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیاآپ کو بتانا ہے کہ وہ رہائش کہاں ہے، کتنی بڑی ہے، یہ جائیداد کس طرح حاصل کی ، کتنے میں لی؟ عمران خان کا موقف عدالت کے سامنے بالکل واضح تھا۔

سکندر بشیر نے کہا کہ میرا کیس عمران خان سے مختلف ہے، اس کیس میں ٹرسٹ نے فنڈز دیے ، وہ پیسے بھی بتاؤں گا جو جہانگیر ترین نے ٹرسٹ کودیے ، باقی ڈیلنگ ٹرسٹی اور بینیفیشل اونر کی ہے۔

سکندر بشیرنے کہا 2011میں 25 لاکھ پاؤنڈ ٹرسٹ کےلیے بھیجے گئے ، 2012میں5 لاکھ پاؤنڈ بھیجے گئے ، 2014میں 11 لاکھ ڈالر بھیجے گئے ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پراپرٹی ایک ہے ، ادائیگیاں 3 کی گئیں، کب خریدی یہ بتائیں؟ چیف جسٹس بولے کیا ٹرسٹ ڈیڈ موجود ہے؟آپ نے ٹرسٹ بنایا آپ کے پاس تو ٹرسٹ ڈیڈ ہونی چاہئے؟ اگر آپ کے پاس نہیں تو بچوں کے پاس تو ہونی چاہئے ۔

سکندر بشیرنے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں تاہم اس کے لیے کمپنی سے رابطہ کررہاہوں ، جہانگیر ترین بینیفیشل اونر نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا آپ ٹرسٹ کے بینیفشری نہیں؟ سکند بشیر نے کہا نہیں، بینیفشری بچے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ ثابت کرنا ہے جو تحائف دیے گئے وہ اتنے ہی موصول بھی کیے گئے، جب آف شور کمپنی بنائی تو چاروں بچوں کی عمریں کیا تھیں، کیا اس وقت بچے زیر کفالت تھے یا خودمختار تھے؟

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ 2011 سے بچے بالغ تھے، عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل کو 10 روز میں آف شور کمپنی کی دستاویزات اور بچوں کے انکم ٹکس ریٹرن جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

تازہ ترین