• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیل میں دوران قید انتخابات لڑنے والے عالمی سیاستدان

World Politicians Who Fought Election In The Prison

صابرشاہ....

گزشتہ سالوں میں چشم فلک نےبے شمار ایسے سیاستدان دیکھےہیں جنہوں نے سنگین جرائم کے ارتکاب کی پاداش میں یا کرپشن سے قتل اور اغوا سے لے کر بغاوت جیسے جرائم کے مخالفین کے الزامات کی بناء پر قید کاٹتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ یہ بات ’’جنگ گروپ اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک‘‘ کی جانب سے کی گئی ریسرچ سے واضح ہوتی ہے۔ اس حوالے سے چند مثالیں ذیل میں دی گئی ہیں۔

Sabir 01_l

سابق بنگلہ دیشی صدر جنرل حسین محمد ارشاد نے 1991ء اور 1996ء میں جیل سے عام الیکشن کامیابی سے لڑا اور دونوں بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ یوگو سلاویہ کے سابق صدر سلوبوڈن ملازووچ کو جنگی جرائم پر سوئٹزرلینڈ میں قید کیا گیا تھا، انہوں نے دسمبر 2003ء میں سربیا مونٹی نیگرو کی پارلیمانی نشست جیتی تاہم ان کی سوشلسٹ پارٹی نےانہیں سیٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ پارلیمنٹ کے قواعد کے مطابق ہر رکن کے لئے پہلے اجلاس میں ذاتی طور پر شرکت لازمی تھی۔ شمالی آئرلینڈ کے کئی ری پبلکنز نے زیر حراست ہونے کے باوجود برطانوی پارلیمنٹ میں سیٹیں جیتیں، ان اسیروں میں اسے ایک بھوک ہڑتال کرنےوالی معروف شخصیت بوبی سینڈز تھے تاہم ان تمام آئرش سیاست دانوں نے اپنی نشستیں لینے سے انکار کردیا کیونکہ ان کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ کو شمالی آئرلینڈ پر کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔

sabir 02_l

دسمبر 2009ء میں مروان برغوتی نے فلسطینی اتھارٹی کی صدارت کے لئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ وہ قتل کے الزام میں 5بار عمر قید کاٹ رہے تھے اورالفتح کےنسبتاً اعتدال پسند معروف لیڈر محمود عباس کے حریف تھے۔ سابق پاکستانی صدر آصف زرداری1997ءمیں کراچی جیل میں اسیری کےدوران سینٹ کا الیکشن جیتے، دسمبر1997ء میں انہوں نےحلف لینے کے لئے سخت سکیورٹی میں جہاز پر اسلام آباد کاسفر کیا۔ 3 جولائی 1998ء میں سوئس حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے دستاویزات پاکستانی حکام کو دینے پر ان پر پاکستان میں کرپشن کا الزام لگا۔ زیر حراست ہونے کے باوجود زرداری نے 90 ءمیں قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے کے بعد علامتی طور پر بطور رکن پارلیمنٹ خدمات انجام دیں، وہ 2004ء میں جیل سے رہا ہوئے اور خود ساختہ جلا وطنی کا راستہ چنا۔ اگست 2016ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے وسیم اختر جیل سےمیئر منتخب ہوئے۔ انہیں اپنےحق رائے دہی کےاستعمال کے لئے کڑے پہرے میں لایا گیا۔

sabir 03_l

وسیم اختر کا مؤقف تھا کہ انکے خلاف تمام مقدمات سیاسی ہیں جن کاکوئی ثبوت نہیں۔ دہشتگردوں کے علاج کے کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت سےضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے کے بعد 19 جولائی 20016ء سے وہ جیل میں تھے۔ جون2016ء میں رومانیہ کے میئر کیٹلین کریچز نےاسیری کے دوران 70 فیصد اکثریت سے دوبارہ مینڈیٹ حاصل کیا۔ کیٹلین کو اپریل 2016ء میں رشوت ستانی کے الزام میں گرفتار اور قید کیا گیا، ایک اور رومانین میئر لیاواسی لیسیو بھی مکرر 70 فیصد سے زائد ووٹ لینےمیں کامیاب ہوئیں۔ انہیں مارچ 2016ء میں رشوت ستانی کے الزام پر اینٹی کرپشن کے پراسیکیوٹرز نے پکڑا اور پھر گھر پر نظر بند کر دیا تھا۔

sabir 04_l

امریکا میں شکاگو کے ایک کونسل ممبر نے دوسری مدت کیلئے عہدے کا حلف لیا جبکہ ان کے چنائو کا مقام سٹی ہال نہیں کائونٹی جیل تھا جہاں رائے شماری کے عمل کی نگرانی مئیر شکاگو نہیں بلکہ ایک سرکاری افسر نے کی۔ ’’شکاگو ٹرائبیون ‘‘ کے مطابق کونسل ممبر مختلف جرائم کے الزام میں جیل کاٹ رہا تھا، ورجینیا کے قانون ساز جوزف موریسی نے جنوری 2015ء میں اسیری کے دوران ریاست کے ایوان نمائندگان کے الیکشن کے لئے کامیاب انتخابی مہم چلائی، وہ ایک کمسن کی خطا میں معاونت کے الزام میں سزا بھگت رہےتھے۔ خبر رساں ایجنسی ’’روئٹرز ‘‘ کے مطابق جوزف نے 42.3 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ امریکا کےایک دائمی صدارتی امیدوار لنڈن لاروشے نے 1992ء میں اپنی انتخابی مہم جیل سے چلائی جبکہ 1920ء میں سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر اور معروف انڈسٹریل یونین ورکر یوجین ڈیبز بھی انہی کے راستے پر چلے، لاروشے 1976ء سے 2004ء تک ہر صدارتی الیکشن میں امیدوار تھے (وہ ایک بار اپنی لیبر پارٹی اور 7بار ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سےالیکشن لڑے)۔

یوجین ڈیبز سوشلسٹ پارٹی کی جانب سے 5بار 1900 ،1904، 1908 ،1912اور 1920ء میں صدارتی امیدوار تھے، لاروشے کو جنوری 1989ء میں انٹرنل ریونیو سروس سے فراڈ کی منصوبہ سازی اور اپنے حامیوں سے لئے گئے 30ملین ڈالر کےقرضے جان بوجھ کر ڈیفالٹ کرنے پر 15سال قید کی سزا سنائی گئی (بحوالہ دی نیو یارک ٹائمز) دوسری جانب یوجین ڈیبز جو کہ اپنےجوش خطاب کے لئےشہرت رکھتے تھے، امریکا کی پہلی جنگ عظیم میں شمولیت کے خلاف بولنے پر 1918ء میں دوسری بار گرفتار ہوئے۔ انہیں بغاوت ایکٹ کے تحت مجرم قرار دے کر 10سال قید کی سزا دی گئی۔ امریکی صدر وارن ہارڈنگ نے دسمبر1921ء میں ان کی سزا میں تخفیف کردی۔

( بحوالہ دی انڈیا نا میگزین آف ہسٹری، دی نیو یارک ٹائمز) تاریخ بتاتی ہے کہ 1978ء میں ریاست ورمونٹ کے کانگریس ممبرمیتھیو لائن نے بغاوت ایکٹ کی خلاف ورزی پر 4ماہ کی قید بھگتتے ہوئے دوبارہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ لائن اپنی رہائی کے بعد واشنگٹن گئے اور ایوان نمائندگان میں فیصلہ کن ووٹ ڈال کر تھامس جیفرسن کو صدر بنایا۔ 19ویں صدی میں ایک اور امریکی سیاست دان جوزف بارکر پٹسبرگ کے میئر منتخب ہوئے جبکہ وہ اس وقت شورش کو ہوا دینےکے الزام میں ایک سال کی قید کاٹ رہے تھے۔ ایک امریکی میڈیا ہاؤس کے مطابق ’’بار کر کی سزا کی سنگینی نے شہر کو متوجہ کرلیا اور جلد ہی وہ میئر کے لئے ایک مقبول امیدوار بن گئے۔ خوش قسمتی سے بارکر کو جیل سے اُمور نہیں چلانے پڑے اورالیکشن سے ایک رات قبل انکےحامیوں کے ایک جتھے نے سٹی جیل پر دھاوا بول دیا اور بار کر کی فوری رہائی کے لئے شیرف کو دھمکیاں دیں۔ جلدہی یہ بات واضح ہوگئی کہ شہریوں نے ایک ذہنی مریض اور بے وقوف شخص کو منتخب کرلیا ہےتاہم اگلے الیکشن میں شہریوں نے بار کر کو گھر بھجوادیا۔‘‘

ایک اور امریکی سیاست دان جیمز مائیکل کورلے نے 1904ء میں سول سروس کے لئے اپنے دوست کی جگہ امتحان دینے کی پاداش میں دوران اسیری اپنی نشست جیتی، پھر1947ء میں میئر باسٹن کے طور پر اپنی آخری مدت کے وسط میں انہیں میل فراڈ پر سزا ہوگئی تاہم جب وہ جیل گئے تو انہوں نے میئر کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ کورلے صدر ہیری ٹرومین کی جانب سے معافی ملنے سے پہلے صرف5ماہ قید رہے۔ صدرٹرومین اسکے بعد باسٹن کےایک لاکھ سے زائد شہریوں کے ناموں کے ساتھ پٹیشن کا جواب دیتے رہے۔ نومبر 2013ء میں بھارت میں سپریم کورٹ نے مرکز کی طرف سے گرفتار افراد کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی کےفیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کردی اور کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے قانون میں ترمیم کے تناظر میں اس معاملے پر غور کی ضرورت نہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور این ڈی ٹی وی کے مطابق ’’ایک این جی او لوک براہری کی جانب سے مرکز کی پٹیشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس نےعوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کو چیلنج کر رکھا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ترمیم کی آئینی توثیق کے معاملے کو الگ سے دیکھا جائے گا۔

2017ء میں دی اکانومسٹ نےلکھا ’’بھارت میں جرائم پیشہ ہونا ایک انتخابی اثاثہ سمجھا جاتاہےجوکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔‘‘ بہار کےایک سیاستدان محمد شہاب الدین 2004ء میں دوبارہ منتخب ہوگئے اور انہیں بطور رکن پارلیمنٹ حلف لینے کے لئےنئی دہلی جانے کی اجازت بھی دی گئی۔ 4مرتبہ منتخب ہونے والے اس سیاستدان پر40 سے زائد مقدمات ہیں اوروہ قتل کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ ستمبر2016ء میں وہ11سال قید بھگتنے کے بعد رہا ہوئے، قتل کے ایک مقدمے میں ان کی ضمانت منظور کی گئی۔ اکتوبر 2016ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں ایک بار پھر جیل بھجوادیا۔ انڈین ایکسپریس کےمطابق ’’سپریم کورٹ نے بہار حکومت کو حکم دیا کہ انہیں فوری حراست میں لیا جائے، جسٹس پی سی گھوسا اورجسٹس امیتوا روئے نے 7ستمبر کو پٹنہ ہائیکورٹ کی منظور کردہ ضمانت منسوخ کردی اورفیصلہ دیا کہ گینگسٹرسےسیاست دان بننے والے اس شخص کی ہائیکورٹ کاضمانت منظور کرنےکافیصلہ منصفانہ نہیں تھا۔‘‘

ایک اور مجرم بھارتی سیاست دان جس نے جیل سےالیکشن جیتا وہ کامیشور بھاٹیہ تھا۔ 13اکتوبر 2013ء کو دی نیو یارک ٹائمز نے لکھا ’’جب کا میشور بھاٹیہ نےشمال مشرقی بھارت میں اپنے غربت کے شکار اور نچلی ذات کی اکثریت والے حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاتو اسے اپنے کریمنل ریکارڈ کواچھا بنا کر پیش کرنے میں زیادہ محنت نہیں لگی۔ اس نے خود پر عائد سنگین الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔ ان میں سےقتل کے17، اقدام قتل کے 22، خطرناک اسلحے سے حملے کے 6، چوری کے5، اغوا کے دو اور دیگر الزامات شامل تھے۔ جو کہ ان کے مقامی مائو نواز لیڈر کے دور سے متعلق تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ جیل میں تھے۔ انکے بیٹے ببن کمار نے بتایا کہ اس سے ان کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں ہوا جبکہ ببن کمار بھی اپنے والد کی طرح سیاست دان بننا چاہتےہیں اور اس علاقے کے لوگ رابن ہڈ جیسی شخصیت ہی پسندکرتےہیں تویہی عنصر مددگار رہا ہوگا۔‘‘

امریکی اخبار نے لکھا ’’ملک بھر میں کریمنل مقدمات کا سامنا کرنے والے بھارتی حکام کی تعداد غیر معمولی ہے۔ نئی دہلی کےایک ریسرچ گروپ ایسوسی ایشن آف ڈیمو کریٹک ریفارمز کے مطابق یہ شرح 2008ء سے الیکشن جیتنے والوں میں30 فیصدتک ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ بھارت کےجمہوری نظام میں ووٹروں پر اثر انداز ہونے اور عہدے حاصل کرنے کے لئے امیدوار دہشت ناک غنڈوں اور امیر لوگوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں جبکہ کرپشن کی جڑیں دور دور تک پھیل چکی ہیں۔ سابق بنگلہ دیشی صدر جنرل حسین محمد ارشاد نے 1991ء اور 1996ء میں جیل سے عام الیکشن کامیابی سے لڑا اور دونوں مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ 1990 ء میں جمہوریت کےحق میں زبردست تحریک کے نتیجے میں انہیں اقتدار ایک نگراں سیٹ اپ کے حوالے کرنا پڑا تھا اور اقتدار سے نکالے جانے کے فوری بعد وہ اپنے کئی کابینہ اراکین کےساتھ گرفتار ہوئے۔

1997ء میں وہ تقریباً 6 سال جیل میں گذارنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ 2000ء میں بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے انہیں سرکاری فنڈز کے غلط استعمال اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر سزا سنانے والی عدالت کے روبرو گرفتاری دینے کا حکم دیا۔

تازہ ترین